لگائی کے معنی
لگائی کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ لَگا + ای }
تفصیلات
iسنسکرت سے ماخوذ اردو مصدر |لگانا| سے مشتق اسم صفت |لگا| کے ساتھ |ئی| بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے |لگائی| بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٣٦ء کو "ریاض البحر" میں مستعمال ملتا ہے۔, m["(ھ) اتہام","پہاڑی میں لُگّی"]
لگانا لَگا لَگائی
اسم
صفت نسبتی ( واحد )
لگائی کے معنی
١ - لگائی ہوئی، بھڑکائی ہوئی (آگ)۔
بہر خدا یہ اپنی لگائی بجھایئے کب تک تمہارے واسطے کوئی واسطے کوئی بشر جلے (١٨٣٦ء، ریاض البحر، ٢١٧)
٢ - آگ لگانا یا بھڑکانا۔
مہندی مل کر جو ہاتھ دھوئے ہیں یہ لگائی ہے وہ بجھائی ہے (١٨٩١ء، عاقل، دیوان، ١٢٩)
٣ - لگاؤ، اتہام، الزام، بہتان، لگان، محصول۔ (پلیٹس، جامع اللغات)۔
لگائی کے جملے اور مرکبات
لگائی بجھائی
شاعری
- درد دل سوزان محبت محو جو ہو تو عرش پہ ہو
یعنی دور بجھے گی جاکر عشق کی آگ لگائی ہوئی - کسو کم ظرف نے لگائی آہ!
تجھ سے میخانے کے جلانے کی - جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بُجھایا اشکوں نے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے - وہ قحطِ آرزو ہے کہ بازارِ عقل میں
نظارے نے نگاہ کی قیمت لگائی ہے - یہ بھی آدابِ محبت نے گوارا نہ کیا
ان کی تصویر بھی آنکھوں سے لگائی نہ گئی - بھڑکا تھا رات دیکھ کے وہ شعلہ خو مجھے
کچھ روسیہ رقیب نے شاید لگائی بات - آگ پانی میں آب لگائی ہے
دیکھیے گا ذرا ہنر میرا - تونے لگائی آکے یہ کیا آگ اے بسنت
جس سے کہ دل کی آگ اٹھی جاگ اے بسنت - خبر آمد گل کیسی سنائی صیاد
یوں ہی ہم جلتے تھے اور آگ لگائی صیاد - آبس کے رنج سے ہوے غیروں کے دل پہ بار
غربت میں خاک اڑائی لگائی وطن میں آگ
محاورات
- آؤ مہرباں بڑی (دیر لگائی) راہ دکھائی
- ادھورے کام اور جنتی لگائی کو کبھی نہ دیکھے۔ نفرت ہوجاتی ہے
- اگلتی تلوار اور بیسوا لگائی خصم کو مار رکھتی ہے
- اگلتی تلوار بیسوا لگائی خصم کو مار رکھتی ہے
- ان بیچاروں نے ہینگ کہاں پائی (جو بغل میں لگائی)
- باؤلی کو آگ بتائی اس نے لے گھر میں لگائی
- باڑھ ہی جب کھیت کھائے تو رکھوالی کون کرے۔ باڑھ لگائی کھیت کو باڑ کھیت کو کھائے۔ راجہ ہو چوری کرے نیاؤ کون چکائے
- بندر کی آشنائی گھر میں آگ لگائی
- بیسوا عورت (لگائی) اور اگلتی تلوار خصم کو مارتی ہے
- تولا بھر کی چارکچوری۔ کھرما ماشے ڈھائی کا۔ لالہ جی نے بیاہ رچایا دبھلا بیچ لگائی کا