لگانا کے معنی
لگانا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ لَگا + نا }
تفصیلات
iسنسکرت سے ماخوذ |لگنا| کا تعدیہ |لگانا| اردو میں بطور فعل استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["پاس لانا","چسپاں کرنا","چغلی کھانا","ساتھ لگانا","شامل کرنا","غمازی کرنا","گھات میں لگانا","لکگنا کا","مشغول رکھنا","نتھی کرنا"]
لگنا لَگانا
اسم
فعل متعدی
لگانا کے معنی
"جب رقمیں ختم ہو جائیں گی تو اگر تیری ایل ای ڈی جل رہی ہے تو جواب کے بعد ایک کا ہندسہ اور لگا لیں گے۔" (١٩٨٤ء، ماڈل کمپیوٹر بنایئے، ١٦٩)
"کوئی مرد ہاتھ لگائے تو کیسی سنسنیاں سی سارے بدن میں دوڑتی ہیں۔" (١٩٨٩ء، خوشبو کے جزیرے، ٩٠)
زخم ہو بخیہ گر رفو کر دیں جوڑ دل میں لگائے جاتے ہیں (١٨٩٧ء، کلیات راقم، ١٤٣)
"ہماری لگائی ہوئی گلاب باڑی کو تو گدھے چر گئے۔" (١٩٩٠ء، چاندنی بیگم، ٣٣٩)
"اس نے ایک دو تہڑ پاس کھڑے بچے کو لگایا اور وہ. رونے لگا۔" (١٩٨٩ء، خوشبو کے جزیرے، ٥٤)
افسانہ کی آزما کے دیکھ لیا تم نے چھریاں لگا کے دیکھ لیا (١٩٣٣ء، صوت تغزل، ٦٨)
"مسلمانوں، غیر مسلموں، تاجروں اور صناعوں پر واجبی محصول لگائے۔" (١٩٧١ء، تاریخ ایران، ١٥:٢)
کہی سیسوں سے پھر مڑ کے مختصر سی یہ بات لگاؤ تین فرس لا کے جلد زیر قنات (١٩١٢ء، اوج (نور اللغات)۔)
"ہم آپکی ٹوپی میں سرخاب کا پر لگا دیں گے۔" (١٩٩٠ء، چاندنی بیگم، ٢٨٠)
"خانہ جنگیوں کے بازار میں بیش قیمت جانیں بہت سستی لگا دی گئی تھیں۔" (١٩٢٣ء، مضامین شرر، ٤٦:١)
"آخرکار زمیندار نے چالیس روپوں پر. اس کا گھر بار لگا لیا۔" (١٨٢٣ء، حیدری، مختصر کہانیاں، ١٦٠)
"تھوڑا سا چونا درد سر کی وجہ سے کنپٹیوں پر لگایا۔" (١٩٩٠ء، چاندنی بیگم، ٢٦٦)
رہ گیا نقش قدم بن کے جہاں بیٹھ رہا ناتوانی نے لگایا سر منزل مجکو (١٩١١ء، ظہیر دہلوی، دیوان، ١٠٠:٢)
"خدائے تعالٰی نے جو بڑا دانا ہے، اولاد کی یہ مامتا ماں باپ کو اس لیے لگا دی ہے کہ اولاد پرورش پائے۔" (١٨٦٨ء، مراۃ العروس،٣٧)
"تھوڑی سی لگا لے ساری کمزوری اور تھکن دور ہو جائے گی۔" (١٩٧٨ء، جانگلوس، ٤٤٥)
"جو کچھ میرے پاس تھا میں اس پر لگا چکا۔" (١٩٤٥ء، الف لیلہ و لیلہ، ٢٤٩:٦)
"اس کے مقابلے میں راجا رسالو نے پہلی بازی پر اپنے سارے ہتھیار لگائے، دوسری پر اپنا گھوڑا۔" (١٩٦٢ء، حکایات پنجاب (ترجمہ)، ٥٩:١)
اے قصہ گو لگا دے کہیں داستاں میری اس ذکر کو ہے قصۂ اہل وفا سے ربط (١٩٣٢ء، بے نظیر، کلام بے نظیر، ٨٧)
"بغیر ضرورت شدید کے فصد کرنا اور پچھنے لگانا اور بہت سونا. معدہ کو رنج و تکلیف پہنچاتی ہے۔" (١٨٤٥ء، مجمع الفنون، ٧٩)
"آئینہ کو جس وقت اوس کے مقام پر پھر لگایا وہ خاصیت اور اثر نہ پایا۔" (١٨٧٣ء، مطلع العجائب (ترجمہ)، ١٤٥)
"بریلی کا سرمہ اور منجن بیچنے کے لیے گلاب جو ہو بمبئی کی چوپائی پر مجمع لگا چکے تھے۔" (١٩٩٠ء، چاندنی بیگم، ٢٦٣)
"اس نے اپنے ہر بال میں موتی اور ہر زلف میں ہیرا پرویا گلے میں ہار ڈالا اور ماتھے پر چھومر لگایا۔" (١٩٦٢ء، حکایات پنجاب (ترجمہ)، ٣٢٨:١)
"اس نے بے حد طمانیت کے ساتھ موٹر سائیکل پر مہر لگا دی۔" (١٩٨٩ء، خوشبو کے جزیرے، ١٤٨)
"پوسٹر پھاٹک پر لگا دیئے گئے تھے۔" (١٩٩٠ء، چاندنی بیگم، ٣٣٧)
نواب نامدار کو دو تم دعا ظہیر اچھی جگہ ہے رزق خدا نے لگا دیا (١٩١١ء، ظہیر، دیوان، ٢٥:٢)
"اولاً باز کو اندھیرے مکان میں رکھتے ہیں. بعد اس کے اس کو گوشت پر لگاتے ہیں۔" (١٨٦٤ء، مذاق العارفین، ٧٥:٣)
"دھنۂ شریں پتھر پر گھس کے آنکھ میں لگائے فائدہ دے۔" (١٨٧٣ء، مطلع العجائب (ترجمہ)، ٢٨٩)
"دھوپ نگر کے قریب پہنچ کر انہوں نے اپنے خیمے لگا دیئے۔" (١٩٦٢ء، حکایات پنجاب (ترجمہ)، ١٦١:١)
"بہت سے واقعات نعل کے اچھی طرح نہ لگائے جانے سے ظہور میں آتے ہیں۔" (١٩٠٥ء، دستور العمل نعل بندی اسپاں،٦)
ہم سے دل آپ نے اٹھا تو لیا پر کہیں اور بھی لگا نہ سکے (١٩٢٦ء، کلیات حسرت موہانی، ٢٦٧)
اس پری وش سے لگاتے ہیں مجھے لوگ دیوانہ بناتے ہیں مجھے (١٨٥١ء، مومن، کلیات، ٢٣٨:١)
"خیانت مجرمانہ کا الزام تو نہیں لگایا۔" (١٩٨٩ء، آب گم، ٤٠٣)
"کہتے ہیں کہ اگر گھوڑے کی قسمت پھوٹ جائے تو وہ ٹانگے میں لگایا جاتا ہے۔" (١٩٣٣ء، زندگی، ملا رموزی، ٢٠٣)
"مجھے معلوم نہ تھا کہ دروازہ ان لوگوں نے باہر سے لگا دیا ہے۔" (١٩٩٠ء، کالی حویلی، ٤٧)
گلشن میں نہ دل بلبل ناکام لگائے پنہاں یہیں صیاد بھی ہے دام لگائے (١٩٢٤ء، کلیات حسرت موہانی، ٢٣٤)
"معمار آج صبح آیا تھا بارش ہو رہی تھی اس لیے اس کو نہیں لگایا۔" (١٨٩٥ء، مکتوبات حالی، ١٩٠:٢)
"انوکھے چوکھے نے سیماپوری والی بے چاریوں کو کام سے لگایا تو برا کیا۔" (١٩٩٠ء، چاندنی بیگم، ٢٥٤)
"چلتے وقت مجھے یوں گلے لگایا جیسے میں ان کی سگی بہن ہوں اور برسوں کے لیے بچھڑ رہی ہوں۔" (١٩٨٢ء، پرایا گھر، ٨١)
"سہرا پورا کر کے سرستی دیوی نے راجہ کی پیشانی پر مٹی کا قشقہ لگایا۔" (١٩٨٦ء، جولامکھ، ٢٤)
کسبی کیا کیا نہ لگائے گی بلا میرے بعد ریش میں کون لگائے گی حنا میرے بعد (١٩٢١ء، دیوان ریختی، ٣٥)
"ستون لگا کر دو منزلہ عمارتیں بنائی ہیں۔" (١٨٤٦ء، آثار الصنادید، ١٥)
"پھر جاپان میں کارخانے لگائے۔" (١٩٧٤ء، مساوات، کراچی، ٩جنوری، ٣)
اے ظفر کب سنے ہے وہ میری اس کو باتوں میں تو ہزار لگا (١٨٤٥ء، کلیات ظفر، ٢١:١)
"میں نے انٹرنس کی کلاسوں تک تعلیم پائی ہے مگر ثاقب نے کالج میں بھی ایک دو سال لگا رکھے تھے ۔" (١٩٨٨ء، نشیب، ٣٣١)
"سو مرتبہ زہرہ نے نان آفتاب لگائی مگر. شیرمال کی سی رونق اور آبداری اوس پر نہ آئی۔" (١٨٥٧ء، مینا بازار، اردو، ٢٦)
دل کے بہلانے کی یہ بھی شکل اک جاتی رہی یاد کو تیری لگا کر درد ہجراں لے چلا (١٩١٠ء، خوبی سخن، ٤)
امسال مدینے کی طرف قصد مگر ہے یہ سچ ہے تو للّلہ مجھے ساتھ لگا لو (١٩٢٥ء، نیستان، ٣٢)
تمہارے ساتھ ہیں دشمن شب و روز یہ فتنے تم لگا لائے کہاں سے (١٩١١ء، ظہیر، دیوان، ١٦٣:٢)
"شعلہ غدار نے برق کو بے ہوش کر کے پشتارہ باندھا ادوش پر لگا کر سامنے شمیم کے کھڑی ہوئی۔" (١٩٠١ء، طلسم نوخیز جمشیدی، ٧٤٢:٢)
"اس نے گاڑی کی نمبر پلیٹ کے دو سو روپے لگائے۔" (١٩٨٩ء، آب گم، ١٩٢)
"گھر کے اندر پہنچا تو بھابی ناشتے کا سامان لگائے بیٹھی تھیں۔" (١٩٥٥ء، آبلہ دل کا، ١٩٠)
"یہ بات مانی ہوئی تھی اپنی بیوی لائے گا اور اگر رہے گا، بیوی آکر اور بھی لگائے گی نیا کو چاروں طرف اندھیرا نظر آتا تھا مگر کچھ بھی ہو وہ رگھو کی دست نگر بنکر گھر میں نہ رہے گی۔" (١٩٣٦ء، پریم چند، خاک پروانہ، ١٨٢)
کبھی ہرتے پھرتے جو آگئے تو لگی میں اور لگا گئے مرجان یہ تو نہ ہو سکا کہ بجھاؤ دل کی جلن ذرا (١٩١١ء، ظہیر دہلوی، دیوان، ١٧:٢)
"معبود خدا. لگائے لاتا ہے دن کو رات کے اور رات کو دن کے پیچھے اور چلاتا ہے چاند ستاروں کو ایک خاص دائرہ میں۔" (١٩٠٠ء، امیر مینائی، ذکر حبیب، ٦٨)
نہ لگے درد حدائی کو قیامت کا رنج روز محشر کو نہ میری شب ہجراں سے ملا (١٧٩٨ء، سوز، دیوان، ٢٧)
"وہاں پولیس لگا دی ہے۔" (١٩٧٨ء، جانگلوس، ٤٤٦)
شاعری
- آس کی خواب خیالی دیکھو
آگ پانی میں لگانا چاہے - بنے تم میرے رونے پر شرر جل کر بنے آنسو
کہو تو آگپانی میں لگانا کس سے سیکھے ہو - غوطہ دریائے سخن میں ہے لگانا بہتر
آگے تقدیر سے خر مہرہ ملے یا گوہر - سر بھی ہے تیغ بھی ہے لگانا ہے تو لگا
کہیو نہ جان پھر کے کہ یہ جیو چھپا گیا - ان کے کاٹے بدن پہ دانا ہے
مرچ جدوار پھر لگانا ہے - ہنس کے کہتے ہیں شب وصل وہ کس شوخی سے
ہاتھ چمڑے کے لگانا نہ خبردار مجھے - دل کا لگانا نادانی ہے کام نہ ڈالے ان سے خدا
گندم رنگ بتاں ہیں جتنے ناک چنے چبواتے ہیں - اے مخزن معنی کبھی لالچ میں نہ آتا
پس خردہ اموات نہ ہونٹوں سے لگانا - معصوم نظر کا بھولا پن للچا کی لبھانا کیا جانے
دل آپ نشانہ بنتا ہے وہ تیر لگانا کیا جانے - لو شمع کی نکلتی ہے ان آنسوؤں کے ساتھ
پانی میں ہے یہ آگ لگانا بہت برا
محاورات
- آبرو میں بٹا لگانا
- آر کرنا۔ لگانا یا مارنا
- آسرا تکنا (یا ڈھونڈنا یا لگانا)
- آسمان پھاڑ (کر) کے تھگلی لگانا
- آسمان میں تھگلی (ٹکلی) لگانا
- آسمان میں تھگلی لگانا
- آسمان میں تھیگلی لگانا
- آسن لگانا
- آشنائی کرنا۔ لگانا (متعدی) لگنا
- آشیاں یا آشیانہ بنانا باندھنا۔ چھانا۔ کرنا یا لگانا