لگنا کے معنی
لگنا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ لَگ + نا }
تفصیلات
iاصلاً سنسکرت زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں سنسکرت سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور فعل استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٠٧ء کو "کلیات ولی" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["جماع کرنا","جیسے کرنے لگنا","دھن ہونا","لگاؤ دکھانا","لگانا کا","محبت کرنا","مصادر کے ساتھ شروع ہونا کے معنی میں","ٹکر کھانا","کہنے لگنا","ہم بستر ہونا"]
اسم
فعل لازم
لگنا کے معنی
"اس دستے کو پارک میں اتنی لمبی خندق کھودنے کا حکم دیا گیا کہ جس میں اڑسٹھ آدمی ایک دوسرے سے لگ کر کھڑے ہو سکیں۔" (١٩١٠ء، قافلہ شہیدوں کا (ترجمہ)، ٦٩١:١)
"کھڑکی کے سامنے جا کر طویل کیو میں لگ گئے۔" (١٩٩٠ء، چاندنی بیگم، ٢٤٨)
"رینا صبح سے شیراز کے لیے کمرے درست کرنے میں لگی ہوئی تھی۔" (١٩٨٥ء، کچھ دیر پہلے نیند سے، ٦٨)
"مان سنگھ کو یوں لگا جیسے اس کا حلق بند ہو گیا ہے۔" (١٩٩٣ء، قومی زبان، کراچی، جون، ٧٨)
فرش تا عرش اک آئینہ دیدار لگے جو بھی صورت نظر آئے مجھے دلدار لگے (١٩٧٨ء، صد رنگ، ١٣٤)
"میرا پیٹ خالی تھا اور مجھے کاپنا لگ گیا۔" (١٩٨٨ء، نشیب، ٣٢٨)
طرز سخن کا اپنے ظفر بادشاہ ہے اس کے سخن سے یاں نہ کسی کا سخن لگا (١٨٤٥ء، کلیات ظفر، ٢٣:١)
لگی ہے جن کو لو بزم جہاں میں شمع رویوں کی تو جلنے مثل پروانہ وہ ساتھ اس لو کے لگتے ہیں (١٨٤٩ء، کلیات، ظفر، ٨١:٢)
"مشکل سے مشکل اور غیرمعمولی لمحوں میں بھی ایسے لوگ کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں جنہیں صرف یہ لگی ہوتی ہے کہ دیکھیں کیا ہوا۔" (١٩٧٠ء، قافلہ شہیدوں کا (ترجمہ)، ٤١:١)
"چاکسو تو لگتا بہت ہے کہو میں رات کو آکر سفیدہ بھر دوں۔" (١٩٠٨ء، صبح زندگی، ٦١)
"دونوں چپ چاپ یادوں کی دھوپ چھاؤں میں ڈولتے رہے پھر ان کی آنکھ لگ گئی۔" (١٩٧٨ء، جانگلوس، ٧٢)
"نہر پر تیرا جانا ٹھیک نہیں پولسیے تاک میں لگے ہیں۔" (١٩٧٨ء، جانگلوس، ٤٥٧)
"راستے کے گھنے جنگل کی سیاہی کو بھی اس نے نہیں محسوس کیا کبھی ادھر باگھ بھی لگا کرتا تھا۔" (١٩٦٦ء، سودائی، ١٣٩)
"جب سالن کے لگنے کی بو آنے لگی تو پھر مجھے اس میں پانی ڈالنا یاد آیا۔" (١٩٨٨ء، نشیب، ٢٤٥)
"اس میں چھوٹے کو کن بیر لگے تھے۔" (١٩٧٨ء، جانگلوس، ٤١١)
"ہر تھانے کے ساتھ کچھ گویندے لگے ہوئے تھے۔" (١٩٣٤ء، بنگال کی ابتدائی تاریخ سالگزاری، ٢٦١)
"گھی اور نکالو، اس میں گھی بہت لگتا ہے۔" (١٩٠٨ء، صبح زندگی، ١٣٨)
"میرے گھر تو ایک ہی بھینس لگتی ہے۔" (١٩٢٢ء، گوشۂ عافیت، ١١:١)
ہائے اب تک نہ گھر سے آیا یار چیت آخر ہوا لگا بیساکھ (١٨٥٨ء، کلیات تراب، ١٧٧)
"دردناک فلم ہوتی تو کئی لوگ رونے لگ جاتے۔" (١٩٨٨ء، نشیب، ٣٣٧)
"یہ ابھی تک پتہ نہیں لگا کہ اردو نے اپنی اصلی صورت کب سے اختیار کی۔" (١٩٠٣ء، چراغ دہلی، ١٣)
ہوا جو کوئی محو ذات قدم نہیں اوسپہ لگتا وجود و عدم (١٨٥٨ء، کلیات تراب، ١٢٥)
"چنے خان کے بھی دور پرے کے رشتے میں لگتے ہیں۔" (١٨٩٦ء، شاہد رعنا، ٦٥)
"چیچک ایک متعدی بیماری ہے ایک سے دوسرے کو لگ جاتی ہے۔" (١٩٢٥ء، لطائف عجیبہ، ٥:٣)
"چنانچہ دوسری نشست کے لیے جب کالج لگا تو پرنسپل صاحب کے یہاں میری طلبی ہوئی۔" (١٩٤٤ء، سوانح عمری و سفر نامۂ حیدر، ٥١)
"کتنے ہی الم غلم کے انبار چھت تک لگے تھے۔" (١٩٨٨ء، نشیب، ٥٧)
"فصل گل ابھی باقی تھی، سرخ گلاب کچھ کچھ کھلنے لگے تھے۔" (١٩٩٠ء، چاندنی بیگم، ٣٣٩)
"ان کے محلات کے اندر کبھی کے ٹوٹکے ہونے لگے۔" (١٩٨٦ء، جوالا مکھ، ٢٢٧)
مشاطہ باندھ کس کے حنا بند اس قدر بولیں بگڑ کے "و اے یہ اچھی حنا لگی" (١٩٣٨ء، اقبال، باقیات اقبال، ٥٨٦)
نہ لگا لے گئے جہاں دل کو آہ پہنچائیے کہاں دل کو (١٧٩٨ء، میر سوز، دیوان، ٢٦٦)
"نہ لگو ان سے جب اعتکاف میں بیٹھے ہو۔" (١٧٩٠ء، ترجمہ قرآن مجید، شاہ عبدالقادر، ٢٧)
"اگر کوئی مرد شوہر والی عورت سے لگا ہوا پایا جائے تو وہ دونوں مار ڈالے جائیں۔" (١٨٢٢ء، موسٰی کی توریت مقدس، ٧٧٤)
کرتی ہے زیر برقع فانوس تاک جھانک پروانے سے ہے شمع مقرر لگی ہوئی (١٨٥٤ء، ذوق، دیوان، ١٨٩)
تیرے مریض کو تپ فرقت سے کیا لگی اس کو دعا لگی نہ کسی کی دوا لگی (١٩٣٨ء، اقبال، باقیات اقبال، ٥٠١)
"دروازے سے لگی "آیا اماں" کھڑی تھیں۔" (١٩٤٧ء ، فرحت، مضامین، ٣٩:٣)
مے خانے عجب لطف سے آباد ہیں اکبر شیشے کہیں طاقوں میں کہیں جام لگے ہیں (١٨٩٦ء، تجلیات عشق، ١٨٣)
"پہلے سے کہیں بدی تو ہو ہی چکی تھی مستان شاہ کو پیشاب بھی لگ گیا۔" (١٩٠٠ء، خورشید بہو، ٩٣)
"نہ جاؤں گا جب تک مچھلی میرے کانٹے میں نہ لگے گی۔" (١٩٤٥ء، تذکرۃ الاولیاء، ٤٧٧)
"ایک کچھ پوچھ رہا ہے، دوسرا برابر لگا ہے کہ یہ کب ہٹے اور میرا وار آئے۔" (١٨٦٧ء، اردو کی پہلی کتاب، آزاد، ٢٨:١)
"مگر اس کی آنکھیں گیان شنکر کی طرف لگی ہوئی تھیں۔" (١٩٢٢ء، گوشۂ عافیت، ١٤٩:١)
"میں نے سامنے دیوار پر لگی اس کی بھابھی کی تصویر کو ناگواری سے دیکھتے ہوئے کہا۔" (١٩٨٥ء، کچھ دیر پہلے نیند سے، ١٢١)
"اندر ایک زینہ سے گئے جس پر نہایت قیمتی قالین لگے تھے۔" (١٩١٢ء، روزنامچۂ سیاست، ١٧١:٢)
"جب دستر خوان لگا اور اس پر بائیس قسم کے انواع و اقسام کے کھانے مثلاً انجیر کی کھیر اور سرید وغیرہ چنے گئے تو میں نے خوب سیر ہو کر کھایا۔" (١٩٣٢ء، روح ظرافت، ٧٩)
سننے کو بھیڑ ہے سر محشر لگی ہوئی تہمت تمہارے عشق کی ہم پر لگی ہوئی (١٩٧٩ء، نسخہ ہائے وفا، ٦٣٣)
"بھوت بن کر لگوں گا میری بیدی بنے تو سہی جس دن مروں گا ایک کے سو جگت پانڈے ہونگے۔" (١٩٣٦ء، پریم چند، پریم چالیسی، ٢٨٥:٢)
"نیاز نے کہا ہاں اتنے ضرور لگ جائیں گے۔" (١٩٣٧ء، دنیائے تبسم، ١٩)
"بھئی ہمارے یہاں تو دھوبی لگا ہے۔" (١٩٧٣ء، رنگ روتے ہیں، ٩١)
"بیٹا نظیر تم نے ایسی ایسی عمدہ دوائیں دیں مگر کوئی لگی نہیں، بس اب امید زندگی نہیں۔" (١٩٠٠ء، قتل نظیر، ٣)
"ہوا کی یہ خاصیت ہے کہ گرم زمین پر لگنے سے گرم اور سرد زمین پر چھونے سے سرد ہو جاتی ہے۔" (١٨٧٥ء، جغرافیۂ طبیعی، ٢٧:١)
"یخ بستہ ہوا کے تھپیڑے ہمارے چہروں میں آکر لگے۔" (١٩٨٨ء، نشیب، ٥٦)
"مادہ گیڈر خوش تھی کہ کمان میرے پیٹ میں لگی۔" (١٩٦٢ء، حکایات پنجاب (ترجمہ)، ٢٠:١)
"مگر خیال کو برابر ہونے میں کئی سیکنڈ لگ گئے۔" (١٩٨٨ء، نشیب، ٣٣٧)
"رضائی کو اودی گوٹ لگے گی یا سرمئی۔" (١٨٦٨ء، مراۃ العروس، دیباچۂ دوم، ٤٩)
آباد کر کے شہر خموشاں ہر ایک سو کس کھوج میں ہے تیغ ستمگر لگی ہوئی (١٩٧٩ء، نسخہ ہائے وفا، ٦٣٣)
"دونوں فریقوں کی عزت داؤ پر لگی ہوئی تھی۔" (١٩٨٩ء، برصغیر میں اسلامی کلچر، ٤٩)
لاؤ تو قتل نامہ مرا میں بھی دیکھ لوں کس کس کی مہر ہے سر محضر لگی ہوئی (١٩٧٩ء، نسخہ ہائے وفا، ٦٣٣)
"باقی ماندہ گلابوں میں مختلف قلمیں لگ گئیں۔" (١٩٩٠ء، چاندنی بیگم، ٣٣٩)
"نگوڑے کی کچھ بساط بھی ہو رمضان ہی کے چاند سے تو ساتویں میں لگا ہے" (١٩١٠ء، لڑکیوں کی انشا، ٢٦)
"بیل گاڑیاں جو ڈنلپ کہلا رہی تھیں کہ ان میں ڈنلپ ٹائر لگ گئے تھے۔" (١٩٩٠ء، چاندنی بیگم، ٢٤٨)
"وزن کی بھی گانٹھ لگ چکی ہے اور قیمت کبھی کی وصول ہو کر۔۔۔ پیٹ میں کھیل چکی ہے۔" (١٩٨٧ء، ابو الفضل صدیقی، ترنگ، ٢١١)
شاعری
- پیا جس دن نہیں لگتے گلے منج سوں تو دکھ ہے منج
گلے لگنا پیا کا ہے سو میرا دکھ بھنجن تعویذ - نایاں دیکھی آپ گنوادی نایاں آپس تھاپی
نایاں لگنا نایاں دوڑ نایاں پر گھٹ چھاپی - برا ہے دل کا ہمارے لگنا لگانا غصے سے عاشقی کے
نُچی جبیں سے گلی میں اُس کی خراب و خستہ پھرا کریں گے
محاورات
- (بات) دل کو لگنا
- آبرو میں بٹا لگ جانا یا لگنا
- آبرو میں بٹا لگنا
- آزار لگ جانا یا لگنا
- آس باندھنا (یا رکھنا یا لگنا)
- آسمان میں تھگلی لگنا
- آشنائی لگنا
- آشنائی کرنا۔ لگانا (متعدی) لگنا
- آشنائی کرنا۔ لگنا
- آفت گلے لگنا