ماننا
{ مان + نا }
تفصیلات
iسنسکرت زبان کا لفظ |مان ی| سے |ماننا|۔ اردو میں بطور فعل متعدی استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٦٠٩ء، کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔
["مانی "," مانْنا"]
اسم
فعل متعدی
ماننا کے معنی
"مگر دیر تک وہ یہ ماننے پر آمادہ نہیں ہوا کہ وہ بدل گیا ہے" (١٩٨٥ء، قصہ کہانیاں، ٥٧٣)
مجھے مانتے سب ایسے کہ عدو بھی سجدہ کرتے در یار کعبہ بنتا جو مرا مزار ہوتا (١٨٧٨ء، گلزار داغ، ٤٩)
"سومسی تو مانوں سیام گھٹا ہے اور دانتوں کا جو چمچماہٹ ہے سو مانوں بجلی چمکتی ہے سیام گھٹا میں" (١٧٤٦ء، قصہ مہر افروزو دلبر،٣٩)
دل ان کا صبر میں پتھر صفا میں شیشا ہے نہ مانے گھائو کو برچھی کے وہ کلیجا ہے (١٩٤٢ء، خمسۂ متحیرہ، ٨:٤)
میں وہ مظلوم ہوں مانے ہوئے ہے آسمان مجکو وہیں گردن جھکائی خوف سے دیکھا جہاں مجکو (١٩١٠ء، تاج سخن، ١٦٥)
"دو کوڑیاں اور دو پیسے اور پچیس نفل، آپ کی تندرستی کے مانے ہیں" (١٩١٠ء، لڑکیوں کی انشا، ٥٥)
کیا کسی نے یہ سید سے آپ اے حضرت نہ پیر کو نہ کسی پیشوا کو مانتے ہیں (١٩٢١ء، اکبر کلیات ٣٠٠:١٠)
جتاچوری کر چور اپے سائو ہوئے دغا باز اچکے کوں مانے نہ کوئے (١٦٠١ء، قطب مشتری، ١٧)
کیوں لب التجا کو دوں جنبش تم نہ مانو گے اور نہ مانی ہے (١٩٢٠ء، روح ادب، ٨٧)
چھپ نہ سکے گا دل کا زخم ہنسنے والے مان نہ مان (١٩٥٦ء، نبض دوراں، ٣٠٢)
"تم جنم اسٹمی کیا مانو گے" (١٩٠١ء، فرہنگ آصفیہ، ٢٧٢:٤)
سودا کبھی نہ مانیو نیتا کی گفتگو آوازہ دہل ہے خوش آئند دور کا (١٩٨٢ء، ط ظ، ٦١)
بڑے بھائی کی التجا کو تو مانو نہ مانو کسی کو خدا کو تو مانو (١٩٢٨ء، مرقع لیلیٰ مجنوں، ٣١)
"اتفاق سے وہ ان لوگوں میں ہیں جو لفظوں کو گل وگوہر سے زیادہ مانتے ہیں" (١٩٨٤ء، قہر عشق(ترجمہ)، ١٥)
"تدبیر اور انتظام میں تغیر و تبدل یا تو بادشاہ کی وفات کے بعد ہوا کرتا تھا یا کسی ایسے وزیر کے عہدہ سے علیحدگی کے بعد جس کو اس وقت بادشاہ بہت مانتے ہو" (١٩١٢ء، افتتاحی ایڈریس، ١٦)
پیٹ ظالم کا کیا جانے یہ نہیں مانتا ہے بے کھائے (١٩٣٠ء، اردو گلستان، ١٣٣)
ہم منائیں تو لاکھ بار سخن ہائے لیکن وہ مانتا ہی نہیں (١٨٨٨ء، دیوان سخن، ١٦٠)
چار آئینہ و خود کو کب مانتی تھی وہ ہر وار میں جوشن کا جگر جھانتی تھی وہ (١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٤٣:٢)