مدخل
{ مَد + خَل }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق |صفت| ہے۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٧٧ء کو "عجائب المخلوقات" کے ترجمہ میں مستعمل ملتا ہے۔
["دخل "," داخِل "," مَدْخَل"]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع : مَداخِل[مَدا + خِل]
- جمع غیر ندائی : مَدخَلوں[مَد + خَلوں (و مجہول)]
مدخل کے معنی
"بندرگاہ جس کے مدخل پر دو برج بنے ہوئے تھے، کم از کم دو سو جہازوں کے لیے ایک مکمل اور محفوظ جائے پناہ مہیا کرتی تھی۔" (١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٤٣٨:٣)
"مسکن کا مدخل یعنی اس کے اندرونی دروازے پاک ترین مکان کے لیے اور گھر یعنی ہیکل کے دروازے سونے کے تھے۔" (١٩٥١ء، کتاب مقدس، ٤٢٨)
"میرے بیٹا تیری امیری یا غریبی کا انحصار تیرے مدخل پر نہیں بلکہ تیرے مخرج پر ہے۔" (١٩٠٨ء، مخزن ستمبر، ٤٢)
"تاریخ میں وقت کا دریا رواں ہے جس کا سوت ازل میں ہے اور مدخل ابد میں۔" (١٩٥٩ء، برنی (سید حسن)، مقالات، ٥٦)
"ناظرین خود تصفیہ کر لیں کہ دِلّی کی آبادی کو بار بار ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے میں دریا کے قریب و بعد کو کس درجے مدخل تھا۔" (١٩١٨ء، واقعات دارالحکومت دہلی، ٥:١)
"ٹیلیفون کے مدخل کے اندر زور زور سے بولی ہوئی آواز بھی قریب کے آدمیوں کو سنائی نہیں دیتی۔" (١٩١٨ء، تحفۂ سائنس، ٢٤٤)
مترادف
پھاٹک, دروازہ, داخلہ
مرکبات
مدخل عظیم