مرجھانا

{ مُر + جھا + نا }

تفصیلات

iہندی زبان سے ماخوذ |فعل| ہے اردو میں اپنے اصلی معنی میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور فعل مستعمل ہے۔ ١٧١٨ء کو "دیوان آبرو" میں مستعمل ہوا۔

[""]

اسم

فعل لازم

مرجھانا کے معنی

١ - پھول پتوں وغیرہ کا پژمردہ ہونا، کمھلانا۔

"یہی وہ خاموش پکار تھی جو نخل اسلام کو مرجھانے سے بچا سکتی ہے۔" (١٩٩٥ء، صحیفہ، لاہور، جولائی تا ستمبر، ٢٩)

٢ - پھل وغیرہ کا سوکھنا، خشک ہونا۔

 دل کا یہ احوال ہے غم سے ترے اے مست ناز جیسے مرجھایا ہوا دانہ کوئی انگور کا (١٨٤٥ء، ذوق، د، ٥١)

٣ - رنگ کا پھیکا پڑ جانا یا اڑ جانا۔

"وہیل سرخ پھولوں کے درمیان گھر مرجھاتی ہے اور مر جاتی ہے۔" (١٩٨٩ء، سیاہ آنکھ میں تصویر، ١٠٤)

٤ - اداس ہونا، افسردہ ہونا، غمگین ہونا۔

"وہ قید تنہائی سے جھنجھلایا ہوا ضرور تھا لیکن مرجھایا ہوا ہرگز نہ تھا۔" (١٩٧٤ء، ہمہ یاراں دوزخ، ٩٠)

٥ - افسردہ کرنا، پژمردہ کرنا، مغموم کر دینا۔

 افسردہ ہوا دل تو صبا کیسی امیدیں مرجھا گیا یہ پھول تو کلیاں نہ کھلتیں اور (١٩٩٢ء، افکار، کراچی، مارچ، (صبا اکبر آبادی)، ٣٧)

٦ - انتہائی تشنگی؛ (مجازاً) جیسے پانی کے بغیر پتے اور پھول وغیرہ پژمردہ ہو جاتے ہیں۔

 ایک بڑھیا سے کہا اے ماں مرے دل کا کنول پانی بن مرجھائے جاتا ٹک دے پانی کر نہ ڈھیل (١٧٣٢ء، کربل کتھا، ١١٠)

٧ - دُبلا ہونا، لاغر ہونا۔

"آخر آج تمھاری طبیعیت کی یہ کیا کیفیت ہے تم تو بے طرح مرجھائی ہوئی ہو۔" (١٩١٤ء، راج دلاری، ٦٤)