مردار

{ مُر + دار }

تفصیلات

iفارسی زبان سے ماخوذ |اسم| نیز |صفت| ہے۔ اردو میں بطور اسم نیز صفت مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦٧٨ء کو "غواصی" کے کلیات میں مستعمل ہوا۔

[""]

اسم

صفت ذاتی ( مذکر ), اسم نکرہ ( مذکر - واحد )

اقسام اسم

  • ["جمع غیر ندائی : مُرْداروں[مُر + دا + روں (و مجہول)]"]

مردار کے معنی

["١ - مردہ، مرا ہوا، بے جان؛ بے حس و حرکت۔","٢ - کمزور، نحیف، لاغر","٣ - [ کنایۃ ] بے وقعت، بے معنی، بے کار۔","٤ - [ مجازا ] بدقسمت، نصیب، منحوس۔ (جامع اللغات)","٥ - [ مجازا ] ناپک، حرام، غیر مباح، ناجائز۔","٦ - [ عور ] نابکار، نالائق، جاہل، بدھو، ان پڑھ۔","٧ - [ مونث ] کلمۂ تحقیر جو غصے اور ناراضی کی حالت میں عموماً عورت سے کہا جاتا ہے، فاحشہ، بدبخت، پلید و نیز مطلق کمبخت، ذلیل (دنیا کے لیے بھی مستعمل)۔"]

["\"میری ہستی صرف اس ظاہر کے بدن کا ہونا نہیں ہے . اس میں جان نہیں ہوتی جس کے بغیر وہ مردار ہوتا ہے۔\" (١٨٩٤ء، تعلیم الاخلاق، ٥)","\"شاید مری موت قریب ہے جنگل سے کوئی شیر بھیڑیا نکل آئے گا مجھ مردار کو کھا جائے گا۔\" (١٨٩١ء، طلسم ہوشربا، ١٥٦:٥)","\"اسی سے یہ بھی سمجھ لو کہ کس طرح الفاظ محاورے سے گر کر مردار ہو جاتے ہیں۔\" (١٨٨٧ء، سخندان فارس، ٤١:٢)"," تجارات کو کھیتی کو دشوار سمجھیں فرنگی کے پیسے کو مردار سمجھیں (١٨٧٩ء، مسدس حالی، ٤٧)","\"اس مردار کو اتنا پڑھا سمجھا دیا تھا، مگر جب بولی الٹی ہی بولی۔\" (١٨٩٦ء، شاہد رعنا، ٤٩)","\"لڑائی کی وجہ اس کی وہ مردار عیسائی منگیتر تھی جو جانے کہاں سے ٹپک پڑی تھی۔\" (١٩٧٨ء، فصل گل آئی یا اجل آئی، ١٤١)"]

["١ - وہ جانور جو خود مر گیا ہو، مردہ جانور، (ذبیحہ کے مقابل)۔","٢ - مری ہوئی چیز، نعش، لاش۔ (جامع اللغات)"]

["\"شاہین کی نظر ہمیشہ بلند ہوتی ہے، وہ بھوکا بھی ہو تو مردار پر نہیں جھکتا۔\" (١٩٨٨ء، سلیوٹ، ٣)"]

مترادف

نجس, مردہ

مرکبات

مردار خوار, مردار خواری