مضطر کے معنی
مضطر کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ مُض + طَر }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق صفت ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٥٤ء کو "دیوان ذوق" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بے بس","بے چارہ","بے چین","بے قرار","بے کل","ضرر پہنچایا گیا","ضرر رسیدہ","مُبتلائے تکلیف","مضطرب بیاکُل","نقصان رسیدہ"]
ضرر مُضْطَر
اسم
صفت ذاتی ( واحد )
مضطر کے معنی
"ان دنوں ایاز کی زندگی میں بڑی رنگینیاں تھیں مگر ایسا لگتا تھا، جیسے اندر سے بہت مضطر اور تشنہ لب ہو۔" (١٩٩٨ء، قومی زبان، کراچی، دسمبر، ٢٧)
"مضطر وہ ہے جو حرام چیز کے کھانے پر مجبور ہو اور اس کو نہ کھانے سے خوف جان ہو۔" (١٩١١ء، ترجمہ قرآن، مولانا احمد رضا بریلوی، تفسیر، مولانا نعیم الدین مراد آبادی، ٤٢)
"میرے اغوا کے بعد تم مختار تھے یا مضطر و مجبور۔" (١٩٧٢ء، معارف القرآن، ٢٣٠:٥)
مضطر کے مترادف
نقصان
آزُردہ, بیتاب, بیچارہ, بیچین, بیقرار, پریشان
مضطر english meaning
afflictedchagrineddespearatedesperateleft with no choiceleft with no choice [A~ اضطرار]left with no choice. [A~??????]powerless
شاعری
- ثبوت مانگ رہے ہیں وہ مجھ سے اُلفت کا
دکھادے خاک کوئی میرے قلبِ مضطر کی - وہ آنکھ کی پتلی جو اب آنکھوں سے نہاں ہے
دل زینب مضطر کا ہر اک سو نگراں ہے - پھر خدا جانے ملے کب موقع اظہار حال
بات اب کوئی نہ رکھیو اے دل مضطر لگی - دل مضطر وملول طبیعت تھی فکر مند
کانٹوں میں گھر گیا تھا گل بادشا پسند - اسی کی مہربانی سے یہ تکلیفیں اٹھاتے ہیں
دل مضطر کو ہم نے دشمن زیر بغل پایا - کیا درد دل میں خانہ بخانہ بیاں کروں
کس سے یہ جاکے مضطر بانہ بیاں کروں - کبھی میری طرف ہے اور کبھی ہے آپ کی جانب
مزہ پھر کیا ہے جب تھالی کا بیگن قلب مضطر ہو - گریہ بے تاثیر و فریاد دل مضطر خراب
کار عشق و عاشقی ناقص تمام اکثر خراب - دل مضطر ہے خائف گربہ چشمی دیکھ حاسد کی
ہو خوابندہ جب سے طفل بازی گر کبوتر کا - کبھی مایہ ناز و تعل ہے کبھی مضطر دل کی تسلی ہے
کبھی پرتو برق تجلی ہے کبھی جلوہ فروز عرش بریں
محاورات
- مضطرب ہونا