موضوع
{ مَو (و لین) + ضُوع }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم مفعول ہے جو اردو میں اپنے معنی و ساخت کے اعتبار سے بطور صفت نیز بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٨١٠ء کو "کلیاتِ میر" میں مستعمل ملتا ہے۔
["وضع "," مَوضُوع"]
اسم
صفت ذاتی ( واحد ), اسم معرفہ ( مؤنث - واحد ), اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- ["جمع : مَوضَوعات[مَو (و لین) + ضُو + عات]"]
- ["جمع : مَوضُوعات[مَو (ولین) + ضُو + عات]"]
- ["جمع : مَوضُوعات[مَو (و لین) + ضُو + عات]"]
موضوع کے معنی
["\"انسان میں ایک مطلق خیر کی تلاش. تابع بنانے والا موضوع بنا دیتی ہے\" (١٩٤٧ء، اخلاقیات (مقدمہ)، ٢٩٤۔)"]
["\"موضوع حدیث وہ ہے جسے کوئی جھوٹا آدمی گھڑ کے رسول اللہۖ کی جانب منسوب کر دے\" (١٩٨٩ء، علوم الحدیث (ترجمہ)، ٣٢٠۔)","\"اسی طرح ان لوگوں کو بھی سخت مجرم قرار دیا ہے جو ایسے لوگوں کو امام بنا کر موضوع اور غلط روایات سننے کے عادی ہو گئے ہیں\" (١٩٧١ء، معارف القرآن، ١٥٦:٣۔)"]
["\"کسی موضوع پر لب کشائی کرنے سے قبل اس کے ایک ایک پہلو کو ذہن میں تولتے اور پھر بولتے ہیں\" (١٩٩٦ء، حضور احمد سلیم ایک مطالعہ، ١٨۔)","\"قیاس کی تین حدود میں سے دو نتیجہ میں موضوع اور محمول بنتی ہیں\" (١٩٦٥ء، تعارف منطق جدید، ١٠٤۔)","\"ارسطو نے موضع، ذریعہ (Medium) اور ٹیکنیک میں فرق بتلایا۔ (١٩٦٦ء، اشارات تنقید۔ ٢٤۔)","\"ہیولٰی کے اور بھی نام ہیں مگر یہ سب اضافی اور اعتباری ہیں، چنانچہ ہیولٰی کو موضوع بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ کسی نہ کسی امر کا حامل (اٹھانے والا) ہوتا ہے\" (١٩٨٥ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٢٤٥:١٨۔)","١٨٩ء، رسالہ|حسن| مارچ، ٢٩۔"]
مرکبات
موضوع سخن, موضوع کلام, موضوع گفتگو, موضوع لہ, موضوع وار, موضوع اعظم, موضوع بحث