موڑنا
{ موڑ (و مجہول) + نا }
تفصیلات
iسنسکرت زبان سے ماخوذ اسم |موڑ| کے بعد اردو قاعدے سے |علامتِ مصدر|نا| لگانے سے بنا جو اردو میں اپنے اصل معنی اور بدلی ہوئی تحریراً سب سے پہلے ١٥٠٣ء کو "نوسرہار" میں مستعمل ملتا ہے۔
[""]
اسم
فعل متعدی
موڑنا کے معنی
"اس کے بے شمار پہلو تھے اور تمام مخلوق کے ایک پہلو کو نہیں موڑ سکتی تھی۔" (١٩٩٠ء، معراج اور سائنس، ٥٧)
"اور کہیں اپنی سمت روانگی کو نہ موڑو اور نہ پیچھے پھرو۔" (١٨٩٠ء، جغرافیہ طبعی، ١٣:١)
"جہاز میں بیٹھ کر اسکی باگیں نہیں موڑی جاسکتیں ورنہ کیا عجب ہمارے بھی یہی ہوتا۔" (١٩٧٦ء، نگری نگری پھرا مسافر، ١٨٢)
لوگ پڑھتے تھے تواریخ آج اہل عشق کی جس میں میرا حال غم تھا وہ ورق موڑا گیا (١٩٣٠ء، اعجاز نوح، ٣٦)
"وہ ایک درخت کے بڑے بڑے پتے لے آیا اور دونا بنانے کے لیے میرے آگے رکھ دیے، میں نے ان پتوں کو اٹھایا موڑا اور انکی خوبصورت سی تھالی بنا کر کہا . دو ببول کے کانٹے لگا دو۔" (١٩٨٦ء، بیلے کی کلیاں، ٦٧)
انگلش
["to turn","bend","twist; to screw; to turn or double down; to twist","torture","or pervert (one|s meaning","or words)"]