مژگاں کے معنی
مژگاں کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ مِژ + گاں }
تفصیلات
iفارسی زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو زبان میں اپنی اصلی حالت اور معنی میں بطور |اسم| مستعمل ہے۔ ١٧١٨ء کو "دیوان آبرو" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["ظفر کا شعر ہے ۔ ہجوم اشک سے مژگاں اگر اونچی نہیں ہوتی۔ تعجب کیا کہ شاخ پر ثمر اونچی نہیں ہوتی","مژہ کی جمع۔ مگر اردو میں مفرد بھی استعمال ہوتا ہے"]
مِژَہ مِژْگاں
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - جمع )
اقسام اسم
- واحد : مِژَہ[مِژَہ]
مژگاں کے معنی
١ - پلکیں۔
بیان کیا کیجیے بیداد کاوش ہائے مژگاں کا کہ ہر ایک قطرۂ خوں دانہ ہے تسبیح مرجاں کا"مژگاں پلکوں کی پوری قطار کو کہتے ہیں، شاید اسی لیے جمع کا صیغہ "کاوشہا" استعمال کیا ہے لیکن مراد تواتر سے بھی ہوسکتی ہے۔" (١٩٩٢ء، قومی زبان، کراچی، نومبر، ٢٥)
شاعری
- کل سیر ہم نے سمندر کو بھی جاکر
تحادست نگر پنجہ مژگاں کی تری کا - بس اے میر مژگاں سے پونچھ آنسوؤں کو
تو کب تک یہ موتی پروتا رہے گا - تمہارے ترکشِ مژگاں کی کیا کروں تعریف
جو تیر اس سے چلا سو جگر کے پار ہوا - اک رہا مژگاں کی صف مین ایک کے ٹکڑے ہوئے
دل جگر جو میر دونوں اپنے غمخواروں میں تھے - جگر سوئے مژگاں کھنچا جائے ہے کچھ
مگر دیدۂ تر ہیں لوہو کے پیاسے - عشاق پر جووے صف مژگاں پھریں تو میر
جوں اشک کتنے چو گئے کتنے ٹپک گئے - ہر اک مژگاں پہ میرے اشک کے قطرے جھمکتے ہیں
تماشا مفت خوباں ہے لب دریا چراغاں ہے - ایک نبھنے کا نہیں مژگاں تلک بوجھل میں سب
کاروان لختِ دلی ہر اشک کے ہمراہ ہے - مت ڈھلک مژگاں سے اب تو اے سرشک آبدار
مفت میں جاتی رہے گی تیری موتی کی سی آب - تیری قربت کے سبھی عکس مرے قیدی تھے
تُونے اے جاں‘ پسِ مژگاں کبھی دیکھا ہی نہ تھا
محاورات
- سنان مژگاں سینے میں گڑنا