نباہنا
{ نِباہ + نا }
تفصیلات
iپراکرت سے اردو میں ماخوذ اسم |نباہ| کے ساتھ اردو قاعدے کے تحت علامتِ مصدر |نا| بڑھانے سے |نباہنا| بنا۔ اردو میں بطور فعل استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٦٥٤ء کو |گنج شریف" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔
[""]
اسم
فعل متعدی
نباہنا کے معنی
"انہوں نے پہلی ملاقات کی بے تکلفی اور خلوص کو آخر دم تک نباہا" (١٩٩٠ء قومی زبان، کراچی، مارچ، ١٠)
"زمین اور اس کے رشتوں کو انہوں نے جس طرح چاہا اور نباہا ہے وہ ایک ایک سطر سے جھلکتا ہے" (١٩٨٥ء، انشائیہ اردو ادب میں، ٢٣٢)
مجھ سے وا ماندوں کو اللہ نباہے تو نبھیں تن سویہ خستہ و درپیش اتنے (١٧٩٥ء، قائم، دیوان، ١٤٣۔)
"چکبست کا خیال صحیح ہے کہ متناسب الفاظ کا لطافت کے ساتھ نباہنا دشوار ہے" (١٩٨٩ء، نگار، کراچی، دسمبر، ١٤٨)
"شاعری صرف پابندیوں کا نام نہیں ہے، یا پابندیوں کو نباہنا ہی شاعری نہیں ہے" (١٩٨٨ء، قومی زبان، کراچی، جولائی، ٤٤۔)
"طویل قطعے کو نباہنا کوئی آسان کام نہیں" (١٩٧٦ء، سخن ور (نئے اور پرانے)، ٩٧۔)
"دوستی کا نباہنا بھی ایک مشکل کام ہے" (١٩١٧ء، رسائل کے دفینوں سے اردو ادب کی بازیافت الصعر، ٣٥٥:٢)
تم کب یہ فریب کھا سکو گے ہم نے تو نباہی سادگی میں (١٩٦١ء، قلب و نظر کے سلسلے، ٣٠٨)
مرنے دو مرنے والوں کو، غم کا شوق فروزاں کیوں ہے کس نے اپنا حال سنا ہے ہم ہی کس کا درد نباہیں (١٩٨٣ء، بسروساماں، ٢٧۔)