ٹوک کے معنی
ٹوک کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ ٹوک (واؤ مجہول) }
تفصیلات
iسنسکرت سے ماخوذ اردو مصدر |ٹوکنا| سے مشتق حاصل مصدر ہے اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٩٢٨ء میں "پس پردہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["پوچھنا","پوچھ گچھ","تعرض ان معنوں میں اردو میں روک ٹوک اور ٹوک ٹاک میں استعمال ہوتا ہے","چشم بد","چشم زخم","س۔ ستوک۔ چھوٹا","نظر بد","نظر گزر","ٹوکنا سے"]
ترکیا ٹوکنا ٹوک
اسم
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : ٹوکیں[(واؤ مجہول) + کیں (یائے مجہول)]
- جمع غیر ندائی : ٹوکوں[ٹو (واؤ مجہول) + کوں (واؤ مجہول)]
ٹوک کے معنی
"حیات صاحب کے اعتراض اور ٹوک نے تو بالکل ہی کھو دیا۔" (١٩٢٨ء، پس پردہ، ٣٠)
ٹوک کے مترادف
روک, ممانعت
پارچہ, ترک, تعرض, تعرُض, حصہ, ذرہ, روک, ریزہ, مزاحمت, ممانعت, مُمانعت, نظر, ٹکڑا, کن, ہُونس
ٹوک english meaning
questioninginterrogating; challenge; checkpreventionhindranceobstruction; parolewatchword; the influence of an evil eyelack of informationrashnesssenseless [A]temerity [A]unawareness
شاعری
- ٹوک دیتے ہیں تجھے ہر کرم بے جا پر
تیری محفل میں گنہگار تک آپہنچے ہیں - جو اوس کے بچے ٹوک شانے ہوئے
قوت تن منے آ توانے ہوئے - نہ ٹوک الفت کے داغ کو اب نظر لگا مت کہیں تو انشا
ٹک اس پہ الحمد پھونک پڑھ کر کہ ہے یہ چشم و چراغ اپنا - کیا جانے کس نے ٹوک دیا ہے دلیر کو
سب دشت گونجتا ہے یہ غصہ ہے شیر کو - جو آیا نزدیک اژدھا چوک کر
سٹیا دو طرف اُس کوں دو ٹوک کر - آج دو ٹوک کیے لیتے ہیں ان سے ناچار
بن گئی اپنے ہی دم پر تو مروت کیسی - کل کچھ طبیعت اپنی جو مشکوک ہوگئی
آج اُن سے دو ہی باتوں میں دو ٹوک ہوگئی - دونوں اوبن نے پاریں کوک پر کوک
جو سُنے اس کا کلیجا ہوے دو ٹوک - مِلتے ہو غیروں سے پوچھ اور ٹوک ٹوک
دیکھا بھالا ہم کو اور ٹالا میاں - جو اس کے بچے ٹوک شانے ہوئے
قوت تن منے آ توانے ہوئے
محاورات
- آنسو ایک نہیں کلیجہ ٹوک ٹوک
- آنکھ میں آنسو نہیں اور کلیجہ ٹوک ٹوک
- بے روک ٹوک
- پڑھے کے آگے ٹوکرا ڈالا اس نے کہا مجھے اپلوں کے لئے بھیجا
- جو کوئی کھائے چنے کی ٹوک پانی پیوے سو سو گھونٹ
- چاروں راستے موکلے کوئی روک ٹوک نہیں
- چنا کہے میری اونچی ناک۔ ایک گھر دلئے دو گھر راڑ۔ جو کھاوے میرا ایک ٹوک۔ پانی پیوے سو سو گھونٹ
- دو ٹوک ہونا
- دو ٹوک جواب دینا
- دو ٹوک جواب ملنا