پاس[2] کے معنی
پاس[2] کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ پاس }
تفصیلات
iفارسی سے اردو میں آیا اور اپنی اصلی حالت اور اصل معنوں میں بطور اسم مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦٩٥ء میں "دیپک پتنگ" میں مستعمل ملتا ہے۔
[""]
اسم
اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
پاس[2] کے معنی
١ - لحاظ، خیال، مروت۔
"بڑوں کا پاس اور اعلٰی اقدار سے وابستگی اور کبھی کبھی ان سارے بندھنوں سے آزاد ہو جانے کی بے پناہ خواہش۔" (١٩٧٤ء، آپ بیتی، رشید احمد صدیقی، ٢٢)
٢ - طرفداری، جانب داری۔
"بے وارثوں کا پاس؛ بڑوں کی تعظیم - یہ کام ہیں جن کے لیے تم بنائی گئیں۔" (١٩٠٨ء، صبح زندگی، ٢٢٥)
٣ - پہرہ، چوکی۔ (فرہنگ آصفیہ، 476:1)
"جب ایک پاس شب باقی رہتی ہے تو ہر ملک کے ارباب نشاط حاضر ہوتے ہیں۔" (١٩٣٨ء، آئین اکبری، ١، ٤٩٦:١)
٤ - پہر، تین گھنٹے کا وقفہ(اسم عدد کے ساتھ مستعمل)۔
پاس[2] کے جملے اور مرکبات
پاس دار, پاس اخلاص