پرچھائیں کے معنی
پرچھائیں کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ پَر + چھا + اِیں }
تفصیلات
iہندی سے اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٨٠٢، کو "گنج خوبی"میں مستعمل ملتا ہے۔, m[]
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : پَرْچھائِیاں[پَر + چھا + اِیاں]
- جمع غیر ندائی : پَرْچھائِیوں[پَر + چھا + اِیوں (و مجہول)]
پرچھائیں کے معنی
١ - (کسی چیز کا) عکس، سایہ، چھاوں۔
"دور سے آدمی کی پرچھائیں دیکھ کر اس نے آواز دی اور معلوم کیا کہ ام المومنین عائشہ ہیں۔" (١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ٢٣:٢)
٢ - اثر، عادات و فضائل کا پرتو، مثل۔
"باوجود ملا یہ نہ طلب علم کے ملائیت کی پرچھائیں بھی ان پر نہیں پڑی تھی۔" (١٩٤٠ء، کاروان خیال، ٩٣)
٣ - [ مجازا ] بے حقیقت بات، تصور یا تخیل جس کا حقیقت میں وجود نہ ہو۔
ظلمت ابہام میں پرچھائیں تفصیلات کی پیچ وخم کھاتے بگولے میں چمک ذرات کی (١٩٣٣ء، سیف و سبو، ٥٧)
پرچھائیں english meaning
shadow or influence (of an evil spirit); to fall (upon); to take (after); resemble
شاعری
- ہر روز ہمیں ملنا ہر روز بچھڑنا ہے
میں رات کی پرچھائیں تو صبح کا چہرہ ہے - کوسوں ہی پرچھائیں سے بھاگوں میں بیگم جان کی
کھو جڑے پیٹا اگر دل مانے میرا بد نصیب - دیکھو پھر اب اگر ستاؤ گے
میری پرچھائیں تک نہ پاؤ گے - میں مکدر جو کبھی مسجد جامع میں گیا
میری پرچھائیں سے ہوجائیں گے پتھر میلے - کوسوں ہی پرچھائیں سے بھاگوں میں بیگم جان کی
کھوجڑے پیٹا اگر دل مانے میرا بدنصیب
محاورات
- اپنی پرچھائیں سے بھاگنا / ڈرنا
- پرچھائیں سے بھی بھاگنا
- پرچھائیں نہ پانا
- پرچھانواں۔ پرچھائیں ڈالنا
- پرچھاواں یا پرچھائیں پڑنا
- پرچھاویں یا پرچھائیں سے بچنا۔ بھاگنا یا دور بھاگنا۔ یا ڈرنا