چڑھنا کے معنی
چڑھنا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ چَڑھ + نا }
تفصیلات
iسنسکرت زبان کا لفظ |چڈھ| سے ماخوذ اردو میں چڑھ| بنا اور |نا| لاحقہ مصدر لگانے سے |چڑھنا| بنا۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ سنسکرت زبان ہی کے لفظ |اُچّھدَت| سے بھی ماخوذ ہے۔ اردو میں بطور فعل مستعمل ہے۔ ١٦١١ء میں "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["آگے ہونا","حملہ کرنا","دھاوا کرنا","روانہ ہونا","سوار ہونا","گھوڑے گاڑی کشتی جہاز وغیرہ پر","موزوں ہونا","نیچے سے اوپر جانا","ٹھیک آنا","ہوا میں بلند ہونا"]
چڈّھ چَڑْھنا
اسم
فعل لازم
چڑھنا کے معنی
"وہ پہاڑوں پر بڑے بڑے بوجھ لکڑی غلہ لے کر آسانی سے چڑھ جاتی ہیں" (١٩١٦ء، گہوراۂ تمدن، ١٠٠)
چڑھ گئی گرچہ مری خاک سے افلاک پہ گرد نہ پڑی پر کبھی اس ماہ کی پوشاک پہ گرد (١٨٤٥ء، کلیات ظفر، ٩٠:١)
"یورپ کی قومیں . جن بلندیوں پر پہنچ گئی ہیں ان پر چڑھنے کی صلاحیت ہندوستانی جبلی طور پر نہیں رکھتے" (١٩٤٠ء، معاشیات ہند، ١٤٥:١)
"چہرہ ہونق، نظر آسمان پر آپ ہیں کبوتر باز گولے چڑھے ہیں، دوسو کی ٹکڑی تاوے کھا رہی ہے" (١٩٥٤ء، اپنی موج میں، ٣٧)
مسلمان جی نہیں سکتا ہے مر لیتا نہیں جب تک یہ دریا چڑھ نہیں سکتا اتر لیتا نہیں جب تک (١٩٣١ء، بہارستان، ٦٣٧)
"عالمگیر دکن پر چڑھا اور دلی والوں کا ٹڈی دل لشکر . وہاں رہا" (١٩٣٣ء، مغل اور اردو، ٣٥)
"اناج کا بھاؤ جو چڑھ گیا ہے . بیلوں کا دام نہیں چڑھ گیا ہے" (١٩٢٢ء، گوشۂ عافیت، ٨٥:١)
خدا کے لیے یہ بھی ایمان ہے یارو بہت چڑھ گئے سر اب ان کو اتارو (١٨٩٦ء، تجلیات عشق، ٤٢٨)
"ایک پائنچا نیچا ایک چڑھا" (١٨٩٠ء، فسانۂ دلفریب، ٥)
"اس میں تھوڑا بہت تو آپ کے ٹھا کر جی پر ضرور ہی چڑھے گا" (١٩٢٢ء، گوشۂ عافیت، ٢٤١:١)
"اگر ہم تینوں آدمیوں کو اس گاڑی پر چڑھنے کا موقع مل جاتا تو ہم تو بہت خوش ہوتے" (١٩٥٦ء، گویا دبستان کھل گیا، ٢٤٧)
"اسٹیشن کے سگنل پر سرخ لالٹیں جو ممانعت کی علامت ہے چڑھی ہوئی تھی" (١٩١٤ء، فلسفۂ جذبات، ١٠)
پاؤ راہ طلب میں سوج گئے کس بلا کی چڑھی ہے تیاری (١٨٩٥ء، دیوان راسخ دہلوی۔ ٣١٧)
"ایک ظریف دن چڑھ آیا اور پڑا سوتا تھا" (١٩٢٥ء، لطائف عجیبہ، ١٦:٣)
"ہنس کر بولا: ابے ابھی سے چڑھنے لگی، چل تھوڑی سے اور لگا۔" (١٩٥٧ء، خدا کی بستی، ٥٩)
"بوا مجھے زردہ چڑھ گیا ہے" (١٩٧٤ء، اردو نامہ، کراچی، ٩١:٤٩)
"اناج یورپ کو چڑھتا ہے" (١٩٢٦ء، نوراللغات، ٥١٨:٢)
"چاول پک چکے ہیں، نیچے اتار کر رکھے ہیں، دال چولہے پر چڑھی ہے" (١٨٦٧ء، اردو کی پہلی کتاب، آزاد، ٣٩)
خون دل آصدف دیدہ میں وہ آب بنا کہ جو مژگاں پہ چڑھا گوہر نایاب بنا (١٨٧٩ء، دیوان عیش، ٦٨)
آستیں ہے یہ ہر اک تنگ کہ چڑھی ہی نہیں بند دارائی کے بھونڈے ہیں سبھی مغلانی (١٨٣٥ء، رنگین، دیوان رنگین وانشا، ٥٧)
"قبر پر بہت قیمتی غلاف چڑھا ہے" (١٩٤٤ء، سوانح عمری و سفر نامہ، حیدر، ١٢٩)
پہنچا ہوں کب میں آن کے راہ مراد پر خیبر شکن کا لال چڑھا ہے جہاد پر (١٧٧٥ء، دبیر، دفتر ماتم، ١٨٢:٢)
"خداوند شب کو کوئی پٹھا چڑھ گیا ہے" (١٨٢٣ء، حیدری، مختصر کہانیاں، ٢٩١)
"اب برات چڑھنے کی دھوم دھام ہوئی" (١٩١١ء، قصہ مہر افروز، ٥٣)
"تیسرے دن بھی اگر اسی طرح چڑھے تو سمجھ لو کہ یہ ملیریا کا بخار ہے" (١٩٨١ء، روزنامہ مشرق، کراچی، ٣ فروری، ٣)
"یاد رکھئے کہ کام کی سطح جس قدر چکنی اور صاف ہوگی اسی قدر عمدہ پالش اس پر چڑھے گی" (١٩٣٥ء، لکڑی کا باریک کام، ٣١)
"پیسہ کہاں سے آیا. پچھلے چڑھے ہوئے ملے تھے" (١٩٦١ء، ہالہ، ٦٩)
"روٹیاں مزے سے چلتی ہیں تنخواہیں مفت میں چڑھتی ہیں" (١٩١١ء، قصہ مہر افروز، ١١)
"سونا پگھلایا جاتا ہے سانچوں میں ڈھلتا ہے گول ٹکیوں میں کٹتا ہے، چرخ پر چڑھتا ہے ٹھپہ لگایا جاتا ہے" (١٨٨٩ء، رسالہ حسن، اگست، ٧٦)
کہیں گشت کرتی تھی ماہی دہاں چڑھا جس پہ تھا ماہ سابادباں (١٨٩٣ء، صدق البیان، ١٧٣)
"پہلی سب غزلیں میضہ میں صاف چڑھ گئیں کہ ابھی کوئی باقی ہے" (١٩٠٤ء، زبان داغ، ٩٧)
"جب میرے ذہن پر خوب چڑھ جائے گا تو جس کے سامنے آپ فرمائیں گے کہہ دونگی" (١٩١٠ء، راحت زمانی، ٣٣)
وہ سہی قد کرے ورزش خوب زوروں پر چڑھا کہہ رہا ہے سرو کو جڑ سے اکھاڑا چاہیے (١٩٣١ء، دیوان ناسخ، ١٨٣:٢)
نیزے پہ سر چڑھے گا ترے نور عین کا گھوڑوں سے روند ڈالیں گے گوشہ حسین کا (١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٨:١)
"فراسیاب نے شہنشاہ لاچین کو قید کر لیا اس بے چارے نے لشکر کشی کی اپنا ملک و مال تباہ کیا اس نمک حرام پر غالب نہ ہو سکا افراسیاب چڑھ گیا بنگالے پر اپنا قبضہ کر لیا" (١٨٩٢ء، طلسم ہوش ربا، ٣٤:٦)
"خورشید مرزا اس کے قابو پر چڑھ گئے تھے" (١٩٢٤ء، اختری بیگم، ١٥٣)
نوکیں نکالی جاتی ہیں تیروں کی سان پر پھل برچھیوں پر چڑھتے ہیں پرچم نشان پر (١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٣١:١)
تازی ہو مری روح وہ باسی بھی اگر لائیں چڑھ جائیں وہی پھول جو کمھلائے ہوئے ہیں (١٨٩٧ء، دیوان مائل، ١٥٦)
"اس حصار میں گنہ گاران شاہنشاہ ہوش ربا قید ہیں آپ اتنی تکلیف کیجئے پانچ کوس چڑھ کے نکل جائیے" (١٨٩٢ء، طلسم ہوش ربا، ٤٢:٦)
"سری پور نیلام پر چڑھا ہوا ہے، کہو تو میں بھی دام لگاؤں" (١٩٣٦ء، پریم چند، پریم پچیسی، ٢٠٠:١)
۔ پیارے اندھیری راتیں ہیں ایسے میں مل لے تو پھر ورنہ چاند چڑھتے ہی آتی ہے چاندنی (١٨٢٤ء، مصحفی، کلیات، ٤٠٦)
تین تھے اوس کے دلربا فرزند ایک سے ایک چڑھتا دانشمند (١٨١٠ء، مثنوی ہشت گلزار، ١٨)
"مجھ کو فکر قرض کھائے جاتا ہے پھر اب پانچ مہینے چڑھ جائیں گے" (١٩٠٣ء، زبان داغ، ٩٨)
پچتائے علم تیر میں برسوں گزار کے بس پھینک دو چڑھے ہوئے چلے اتار کے (١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٢٥٥:١)
"سینکڑوں اردو اور فارسی کی اصطلاحات اس کی زبان پر . چڑھی ہوئی ہیں" (١٩٤٠ء، جائزہ زبان اردو، ٢٧٥:١)
چڑھنا کے جملے اور مرکبات
چڑھتی جوانی
چڑھنا english meaning
ascendbe offered (at shrine etc)be used as a coveringclimbcoverembarkget on the back ofmountrageriseto advanceTo ascendto attackto climbto cllimbto embarkto mountto raiseto rideto soarvexation
شاعری
- سر پہ چڑھنا تجھے پھبتا ہے، پر اے طرف کلاہ
مجھ کو ڈر ہے کہ نہ چھینے ترا لمبر سہرا - سر پہ چڑھنا تجھے پھبتا ہے‘ پر اے طرف کلاہ
مجھ کو ڈر ہے کہ نہ چھینے ترا لمبر سہرا - اونٹ پر چڑھنا تو سنت ہے ضرور
ریل پر چڑھنا مگر اب فرض ہے - منہ چڑھنا آج کل نہ کہیں شایقان مرگ
بگڑی ہوئی ہے قاتل خونخوار کی زباں
محاورات
- آستین یا آستینیں چڑھنا یا چڑھ جانا
- آسمان پر چڑھنا
- آسمان پر دماغ چڑھ جانا چڑھنا
- آنکھ پر چڑھنا
- آنکھوں پر چربی چڑھنا
- آنکھوں پر چڑھنا
- آنکھوں میں چڑھنا
- ابخرات دماغ پر (- کو) چڑھنا
- ابخرے دماغ پر (- کو) چڑھنا
- ابخرے دماغ کو چڑھنا