چھوٹنا کے معنی
چھوٹنا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ چُھوٹ + نا }
تفصیلات
iسنسکرت زبان سے ماخوذ لفظ |چھوٹ| کے ساتھ |نا| بطور لاحقۂ مصدر لگانے سے |چھوٹنا| بنا۔ اردو میں بطور مصدر مستعمل ہے۔ ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(گہن سے) نکلنا","(منہ سے) بچنا","اسپِ نر کا اسپ مادہ سے مجامعت کرنا","انزال ہونا","دیکھئے: چھٹنا","رسی تڑانا","روانہ ہونا","رہا ہوجانا","رہائی پانا","گھوڑے کا جفتی کرنا"]
چُھوٹ چُھوٹْنا
اسم
فعل لازم
چھوٹنا کے معنی
"میں نے کہا مرزا صاحب کیوں نہ آتا دلی کہیں ہم سے چھوٹ سکتی ہے" (١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ٤٧:٣)
"پہلی مصیبت تو یہ آئی کہ ماں چھوٹی ماں کا پکھوا چھوٹا" (١٩٠٨ء، صبح زندگی، ٢٠٨)
نہ چھوٹیں کہیں قیدی زلف تیرے کہ آزاد ہندوستان ہو رہا ہے (١٩٣٢ء، بے نظیر، کلام بے نظیر، ٢١٣)
جتنی قومیں ہیں ہنر ہی سے ہیں وہ مالا مال جتنے نوکر ہیں وہ چھوٹے کہ ہوئے بس کنگال (١٨٩٦ء، تجلیات عشق، ٣٨٩)
مشت پر تھے جو بساط اپنی سو وہ نذر کیے ہم ترے دین سے صیاد ستمگر چھوٹے (١٨٣٢ء، دیوان رند، ٢١٤:١)
گردوں کا اسد کیے ہوئے زیر چھوٹا ہوا نیل گاؤ پر شیر (١٨٨٦ء، کلیات نعت محسن، ١٢٨)
یہ الجھائے نہ کیوں اب دل گرفتاران الفت ہے کسی کی دوش پر چھوٹی ہوئی زلف معنبر ہے (١٩٣٦ء، شعاع مہر، ١٣٠)
"جب کتھا پک کر آیا تو ماما کے ہاتھ سے پتیلی چھوٹ گئی" (١٩٣٦ء، راشد الخیری، تربیت نسواں، ٩٥)
"معمولی فرو گذاشت بھی اس نقاد بادشاہ کی گرفت سے نہ چھوٹتی تھی" (١٩٥٣ء، تاریخ مسلمانان پاکستان و بھارت، ٥٨٩:١)
"پلاسٹک کا ایک بیگ. ٹیکسی میں چھوٹ گیا" (١٩٦٧ء، جنگ، کراچی، ٧ اگست، ١٦)
"ان کی مثال ان دیہاتی لاریوں کی ہے کہ جب تک بھر نہ لیں تب تک نہیں چھوٹتیں" (١٩٦٧ء، ماہ نو، کراچی، جولائی، ١٥)
"ادھر چھ گھڑی کی توپ چھوٹی ادھر پھر برسنا شروع ہوا" (١٩٠٨ء، صبح زندگی، ٢٠٢)
"اگر ایسا ہے تو آپ عدالت سے چھوٹ جائیں گے" (١٩١٤ء، اسرار دربار حرام پور، ١٠:١)
شہروں کے مہوشوں پر اک آسمان ٹوٹے پروردۂ تمدن عشووں کی نبض چھوٹے (١٩٢٢ء، نقش و نگار، ٤٣)
"جب تک مرغ مرغی پر چھوٹتا رہے، اسے تھوڑا تھوڑا حلوہ کھلاتا رہے" (١٨٨٣ء، صید گاہ شوکتی، ٢٠٠)
۔ ہوئی گر گفتگو اس سے نہ آئی بات مطلب کی کیا تحریر اگر نامہ تو حرف مدعا چھوٹا (١٩٥٠ء، دیوان وحشت، ١٨٨)
کیا مزا ہو جو ابھی گالیوں پر ہم چھوٹیں ہم کو جو گھورے الٰی کرے دیدے گریاں چھوٹے (١٨٦٧ء، شعلہ جوالہ، ٢٨٨:١)
باز کب آتی ہے غارت پہ جو چھوٹے وہ آنکھ شہر کے شہر ہی جب تک کہ نہ لوٹے وہ آنکھ (١٨٦١ء، سراپا سخن، ٧١)
ہو گیا تر جو لہو سے کپڑا لاکھ دھویا بھی نہ چھوٹا دھبا (١٨٧٤ء، گلزار خلیل، ٢٤)
اک طرف چھوٹتی ہے روئے شفق پر مہتاب اک طرف ہاتھ میں سورج ہے جلائے مشعل (١٩١٤ء، ریاض شفق، ٢٤)
"گھروں میں عورتیں اور باہر مرد چھوٹے ہوئے ہیں" (١٩١٨ء، سراب مغرب، ٢٢)
"اس طرح پینے سے بخار بھی چھوٹ جاتا ہے" (١٩٢٦ء، خزائن الادویہ، ٤٩:٢)
"طاق ٹوٹے پھوٹے تھے، پتھر اپنی سے چھوٹے ہوئے تھے" (١٩٢٧ء، روح تنقید، ١٢٢)
چھوٹنا english meaning
(of fire work) be let off(of fountain) flow(of stain) be removed |~چھوڑنا|(of train) startbe abandonedbe acquittedbe freedbe let offbe liberatedbe releasedbe sackedbe separatedbreak away chainsexplodespurt
شاعری
- اب چھوٹنا مشکل ہوا اس بند کے جنجال سوں
سن یہ غزل کلمہ پڑھا آکاس اور پاتال موں - صید ہو پھر چھوٹنا ٹک دل کوں ہے اشکال سا
بیطرح روہا ہے مونہہ پر زلف نے یہ جال سا
محاورات
- آنکھوں پر پردے چھوٹنا
- اپنے ہاتھ پانو سے چھوٹنا
- اجل کے منہ سے بچ نکلنا یا چھوٹنا یا نکل آنا یا نکلنا
- انسانیت سے چھوٹنا
- باگ ہاتھ سے چھوٹنا
- پاؤں چھوٹنا یا چھٹنا
- پخ پخی چھوٹنا
- پران چھوٹ جانا یا چھوٹنا
- پران چھوٹنا
- پھریری چھوٹنا (دہلی)