کالا کے معنی
کالا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ کا + لا }
تفصیلات
iسنسکرت زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور صفت اور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٠٣ء کو "نوسرہار" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(س کالک)","بہت","بے حد","دیسی آدمی","سانپ افعی","سیاہ برن","سیاہ نام","سیاہ ہرن","مال و اسباب","کاٹھ کباڑ"]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد ), صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- ["جنسِ مخالف : کالی[کا + لی]","واحد غیر ندائی : کالے[کا + لے]","جمع : کالے[کا + لے]","جمع ندائی : کالو[کا + لو (واؤ مجہول)]","جمع غیر ندائی : کالوں[کا + لوں (واؤ مجہول)]"]
کالا کے معنی
[" تیرے نغمے پہ ترا چاہنے والا کھیلے جیسے بین کی آواز پہ کالا کھیلے (١٩٤٠ء، کلیات بیخود، ١٢٦)","\"پھر اس بے رحمی سے کیا حاصل کہ جو کالا سامنے آیا وہ مار دیا گیا۔\" (١٩٣٢ء، قطب یار جنگ، شکار، ١٣٢)","\"کالا ہوں، میں نے اس کا فقرہ مکمل کر دیا۔\" (١٩٨٨ء، نشیب، ٦٠)","\"ہر قسم کے کبوتروں کے ڈھیروں پنجرے بھرے رہتے تھے . نثادرا ہر رنگ کا . کالا ہر رنگ کا . شیرازی گولے۔\" (١٩٦٥ء، ساقی، جولائی)"]
["\"ماجد کا فوٹو آیا . شاندار کالا سوٹ پہنے ٹائی لگائی لہریے دار بال جمائے۔\" (١٩٨٧ء، روز کا قصہ، ٣٠٠)","\"بارش نے رات کو اور بھی کالا کر دیا تھا۔\" (١٩٨٧ء، روز کا قصہ، ١٦١)"," ہوا کفر کالا اسی دم ستی کہ ماریا اہے دم انے ہم ستی (١٦٠٩ء، قطب مشتری، ١٢)"]
کالا کے مترادف
اسود, سانپ, سیاہ, مسودہ, زنگی
اسود, اسہم, افعی, بڑا, پونجی, تاریک, تیرہ, چالاک, حیہ, ذوفنون, زیادہ, سانپ, سرپ, سودا, سیاہ, مار, ناگ, وقت
کالا کے جملے اور مرکبات
کالا ناگ, کالا جادو, کالا کلوٹا, کالا علم, کالا بھجنگ, کالا دھندا, کالا پتھر, کالا نمک, کالا منہ, کالا پانی, کالا چور, کالا آدمی, کالا آزار, کالاپن, کالا تھور, کالا ریچھ, کالا کوٹ, کالا لوبھیا, کالا لوگ
کالا english meaning
(F. کالی ka|li) Black(usu. but wrong spelling of ) میراسی mira|sia black snakeblackblack snakedarklargesinger by hereditary profession
شاعری
- کیا سیہ کاری نے منہ کالا کیا
بات کرنے کا نہیں کچھ منہ رہا - کالا جادُو
میرا تمام فن‘ مِری کاوش‘ مِرا ریاض
اِک ناتمام گیت کے مِصرعے ہیں جن کے بیچ
معنی کا ربط ہے نہ کسی قافیے کا میل
انجام جس کا طے نہ ہُوا ہو‘ اِک ایسا کھیل!
مری متاع‘ بس یہی جادُو ہے عشق کا
سیکھا ہے جس کو میں نے بڑی مشکلوں کے ساتھ
لیکن یہ سحرِ عشق کا تحفہ عجیب ہے
کھلتا نہیں ہے کچھ کہ حقیقت میں کیا ہے یہ!
تقدیر کی عطا ہے یا کوئی سَزا ہے یہ!
کس سے کہیں اے جاں کہ یہ قصّہ عجیب ہے
کہنے کو یوں تو عشق کا جادُو ہے میرے پاس
پر میرے دل کے واسطے اتنا ہے اِس کا بوجھ
سینے سے اِک پہاڑ سا‘ ہٹتا نہیں ہے یہ
لیکن اَثر کے باب میں ہلکا ہے اِس قدر
تجھ پر اگر چلاؤں تو چلتا نہیں ہے یہ!! - ایک حالتِ ناطاقتی میں
جرمن شاعر گنٹر گراس کی نظم IN OHNMACHT CEFALLEN کا آزاد ترجمہ
جب بھی ہم ناپام کے بارے میں کچھ خبریں پڑھتے ہیں تو سوچتے ہیں
وہ کیسا ہوگا!
ہم کو اس کی بابت کچھ معلوم نہیں
ہم سوچتے ہیں اور پڑھتے ہیں
ہم پڑھتے ہیں اور سوچتے ہیں
ناپام کی صورت کیسی ہوگی!
پھر ہم ان مکروہ بموں کی باتوں میں بھرپور مذمّت کرتے ہیں
صبح سَمے جب ناشتہ میزوں پر لگتا ہے‘
ُگُم سُم بیٹھے تازہ اخباروں میں ہم سب وہ تصویریں دیکھتے ہیں
جن میں اس ناپام کی لائی ہُوئی بربادی اپنی عکس نمائی کرتی ہے
اور اِک دُوجے کو دِکھا دِکھا کے کہتے ہیں
’’دیکھو یہ ناپام ہے… دیکھو ظالم اس سے
کیسی کیسی غضب قیامت ڈھاتے ہیں!‘‘
کچھ ہی دنوں میں متحرک اور مہنگی فلمیں سکرینوں پر آجاتی ہیں
جن سے اُس بیداد کا منظرص کالا اور بھیانک منظر
اور بھی روشن ہوجاتا ہے
ہم گہرے افسوس میں اپنے دانتوں سے ناخن کاٹتے ہیں
اور ناپام کی لائی ہوئی آفت کے ردّ میں لفظوں کے تلوے چاٹتے ہیں
لیکن دُنیا ‘ بربادی کے ہتھکنڈوں سے بھری پڑی ہے
ایک بُرائی کے ردّ میں آواز اُٹھائیں
اُس سے بڑی اِک دوسری پیدا ہوجاتی ہے
وہ سارے الفاظ جنہیں ہم
آدم کُش حربوں کے ردّ میں
مضمونوں کی شکل میں لکھ کر‘ ٹکٹ لگا کر‘ اخباروں کو بھیجتے ہیں
ظالم کی پُرزور مذمّت کرتے ہیں
بارش کے وہ کم طاقت اور بے قیمت سے قطرے ہیں
جو دریاؤں سے اُٹھتے ہیں اور اّٹھتے ہی گرجاتے ہیں
نامَردی کچھ یوں ہے جیسے کوئی ربڑ کی دیوارووں میں چھید بنائے
یہ موسیقی‘ نامردی کی یہ موسیقی‘ اتنی بے تاثیر ہے جیسے
گھسے پٹے اِک ساز پہ کوئی بے رنگی کے گیت سنائے
باہر دُنیا … سرکش اور مغرور یہ دُنیا
طاقت کے منہ زور نشے میں اپنے رُوپ دکھاتی جائے!! - وہ سیہ کارہوں کہ کالا نہ
تخنہ گور آبنوسی خوش نما - بھونر پھولان کے بچھڑی میں ہو کالا جوں کہ کویل ہو
ہری ڈالاں اپر پھر پھر سندر پھل کر جلایا ہے - کالا نہیں وہ آج پڑا اس غم کی آگ میں
سینا چندر کا دل کے تدان تھے کباب تھا - معالج کی نہیں تقصیر ہر گز
مرض ہی عاشقی کالا دوا تھا - سیہ موں اتھا جیوں ہنڈی کا تلا
ہر یک گال کالا دسے جیوں توا - مے فروشی کو تو روکوں گا میں باغی ہی سہی
سرخ پانی سے ہے بہتر مجھے کالا پانی - کہ بالا سفید اور کالا ملاؤ
برابر ملا پیس انگ کوں لگاؤ
محاورات
- کوئلوں کی دلالی میں (منہ بھی کالا کپڑے بھی کالے) ہاتھ کالے
- ابھی کلجگ نے انگوٹھا ہی نکالا ہے
- اچھا باپ دادا کا نام روشن کیا / نام نکالا
- اس کا منہ کالا
- انشاء اللہ (تعالیٰ) تعالیٰ بلی کا منھ کالا
- انکر چکر انکر گھی۔ پانڈے باپ کالا گاکی
- بھاڑ سے نکالا بھٹی میں جھونکا
- تین تتالا چوتھے کا منہ کالا۔ تین ٹکٹ مہا بکٹ اور چار کا منہ کالا اور پانچ ہو تو بھالا
- جا کالا منہ کر
- جھوٹے کا منہ کالا سچے کا بول بالا