کان[2] کے معنی
کان[2] کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ کان }
تفصیلات
iسنسکرت زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٤٢١ء کو "معراج العاشقین" میں مستعمل ملتا ہے۔
[""]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع غیر ندائی : کانوں[کا + نوں (واؤ مجہول)]
کان[2] کے معنی
"اس کی بیوی سارا الزام اس پر ہی رکھ دیتی ہے وہ اور بھی بہت کچھ کہتی ہے مگر وہ حسب معمول اپنے کان بند کرلیتا ہے۔" (١٩٩١ء، افکار، کراچی، اگست، ٣٧)
"تم لوگ نہ خود جھوٹے ہو نہ تمہارے روای جھوٹے ہیں، لیکن کان غلطی کر جاتا ہے۔" (١٩١١ء، سیرۃ النبیۖ، ٧٧:١)
دل و جاں سے لگائے اوس طرف کان بھرے تھے گوہر معنی سے سب کان (١٨٨١ء، مثنوی نل دَمن، ٣٠)
"پھول کی طرح کا ایک زیور ہے چونکہ اس زیور سے پورا کان بھر جاتا ہے اس لیے اس کو کان کہتے ہیں۔" (١٩٧٩ء، عورت اور اردو زبان، ١٥٩)
"زنجک کے سوراخ یعنی بندوق کے کان کے قریب پتھر کے کئی ٹکڑے لگا کر اوس نے گھوڑے کو گرایا۔" (١٩٣٢ء، تفنگِ بافرہنگ، ٣٠)
"کوئی چارپائی والا ان سے ٹیڑھی بات کرے تو یہ اس کو بھی گھرک دیتے ہیں اس کی بھی کان نکال دیتے ہیں، سیدھا کر دیتے ہیں۔" (١٩٧١ء، اردو کی آخری کتاب، ٤٥)
"روٹی پکائی تو عجیب صورت کی نہ گول نہ چوکھونٹی ایک کان ادھر نکلا ہوا اور چار کان ادھر۔" (١٨٦٨ء، مراۃ العروس، ٨٦)
"ان کی گھنڈیاں ان کانوں میں بیھٹی ہیں جو خاص طور پر نصف مسدسی کھپروں میں بنائی جاتی ہیں۔" (١٩١٧ء، رسالہ تعمیر عمارت، ٧٨)
آگے سے بھی آواز ہوئی اس زیادہ طنبور کی طرح گو امیھٹے گئے کان (١٨٣١ء، دیوان ناسخ، ١٩٥:٢)
کان[2] کے مترادف
گوش, عضو, سامعہ, اذن
کان[2] کے جملے اور مرکبات
کن رس, کن رسا, کن پھیڑ, کن چھیدن, کن دو گزار, کن کٹا, کن کھجورا, کن میلیا, کن سال, کن سلائی, کن سوئی, کن پکڑی, کن پھٹا, کن چھدا, کن بچی, کن بدھا, کان کی بالی, کان کے رستے, کان میلیا, کان پکڑی, کان دباکر, کان دبائے