کب سے کے معنی
کب سے کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ کَب + سے }
تفصیلات
iسنسکرت زبان سے ماخوذ اسم |کب| کے ساتھ سنسکرت سے ماخوذ حرف جار |سے| بطور حرف اضافت ملنے سے مرکب بنا۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور متعلق فعل استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨٣١ء کو "دیوانِ ناسخ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["دیر سے","عرصہ سے","مدت سے","کس زمانہ سے","کس زمانے سے","کس وقت تک","کس وقت سے"]
اسم
متعلق فعل
کب سے کے معنی
جانے کب سے راہ تکے ہیں بالی دلھنیا، بانکے ویرن (١٩٦٥ء، سروادی سینا (نسخہ ہائے وفا)، ٤١٣)
اب آئے ہو تو یہاں کیا ہے دیکھنے کے لیے یہ شہر کب سے ہے ویراں وہ لوگ کب کے گئے (١٩٧٤ء، نایافت، ٣٧)
بجلی کی واں چمک نہ فلک پر تمام ہو یاں کب سے غرب میں فرس تیز گام ہو (١٨٧٤ء، انیس مراثی، ٤٤١:١)
کب سے english meaning
long enoughlong sincesince how longsince longsince what timesince whenwhen?
شاعری
- یک چشم منتظر ہے کہ دیکھے ہے کب سے راہ
جوں زخم تیری دُوری میں ناسور ہوگیا - تھے اختلال اگرچہ مزاجوں میں کب سے ایک
ہلنے میں اُس پلک کے نہایت خلل پڑا! - چاند بھی میری طرح حُسن شناسا نکلا
اس کی دیوار پہ حیران کھڑا ہے کب سے - زمانے بیت چلے اور کوئی نہیں آیا
گھری ہیں بوڑھی کتابوں میں لڑکیاں کب سے - بات کرتا ہوں تو لفظوں سے مہک آتی ہے
کوئی انفاس کے پردے میں چھپا ہے کب سے - چلو کہ کوچۂ قاتل سے ہم ہی ہو آئیں
کہ نخلِ دار پہ کب سے ثمر نہیں آیا! - کب سے میں نے پلک نہیں جھپکی!
کوئی امجد مری نگاہ میں ہے! - چراغِ رنگ نوا،اب کہیں سے روشن ہو
سکوتِ شامِ سفر، کب سے انتظار میں ہے - کب سے احباب جسے حلقہ کیے بیٹھے تھے
وہ چراغ آج سرِ راہِ ہوا، رکھا ہے - کب سے آنکھیں تلاشتی ہیں اُسے
ایک دن، جو کسی برس میں نہیں