کلمہ کفر کے معنی

کلمہ کفر کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ کَلِمَہ + اے + کُفْر }

تفصیلات

iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم |کلمہ| کو ہمزۂ اضافت کے ذریعے اسی باب سے مشتق اسم |کفر| کے ساتھ ملانے سے مرکب اضافی بنا جو اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٨١٩ء کو "انجیلِ مقدس" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["خدا اور رسول کی گستاخی کا کلمہ","خلافِ اسلام بات","دھرم نندا","سخنِ کفر","غرور کی بات","وہ بات جس سے دین کی مذمت اور اہانت نکلے","وہ کلمہ جس سے دین اسلام کی خدمت اور اہانت ظاہر ہو","کلامِ بے دینی","کلمۂ نخوت جو خدا تعالیٰ اور اس کے ہندوں کوناپسند داخل کفران نعمت ہے"]

اسم

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )

اقسام اسم

  • جمع : کَلِماتِ کُفْر[کَلِما + تے + کُفْر]

کلمہ کفر کے معنی

١ - ایسی بات جس سے کفر لازم آئے، ایسے الفاظ جو خدا اور اس کے رسول اور دینِ اسلام کی شان میں گستاخی کے ہم معنی ہوں۔

"انا الحق" یہ کلمہ کفر ہے دیوانے۔" (١٩٨٣ء، دستِ شناس، ٣٥٣)

٢ - [ مجازا ] بڑی گستاخی یا غرور کی بات۔

"یہ چہرہ ان شاندار و آسمانی چہروں میں سے تھا جن کی نسبت عمر اور خد و خال کی موزونیت کا سوال کلمۂ کفر معلوم ہوتا تھا۔" (١٩١٤ء، یاسمین، ١٤٩)

شاعری

  • کہہ کے کلمہ کفر کا سولی چڑھے میری بلا
    تھا کمینہ دار بازی کام تھا منصور کاق