کٹاؤ کے معنی
کٹاؤ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ کَٹا + او (واؤ مجہول) }
تفصیلات
iپراکرت زبان سے ماخوذ لفظ |کاٹنا| کا حاصل مصدر ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٧٩٠ء کو "ترجمہ قرآن" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بلند زمين کي کٹائي","زخم ڈالنا","زخم کرنے والا","کاٹ تراش","کاٹ کرنا","کاٹنے والا","کپڑا سینے میں گلکاری (کاڑھنا کے ساتھ)","کپڑے پر پھول کی ایک قسم"]
کاٹْنا کَٹاؤ
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
کٹاؤ کے معنی
"زمین کے کٹاؤ کے انسداد کی ضروریات تحفظ اراضی کے پروگرام . شامل ہیں۔" (١٩٦٠ء، دوسرا پنچ سالہ منصوبہ، ٢٣٦)
"جدھر نگاہ اوٹھا کے دیکھوگی کٹاؤ ہو جائے گا۔" (١٩٢٩ء، اودھ پنچ، لکھنؤ، ١٤، ٤:١٢)
تناؤ مد بھرے سینے کا یہ کمر کا کٹاؤ خطوط جسم سرنگی کے ہیں کھنچے ہوئے تار (١٩٥٩ء، گل نغمہ، ٤٠٥)
"زخم پر اگر نمک ڈالیں تو وہ کٹاؤ کرتا ہے، اور زخم کو بڑھاتا ہے۔" (١٨٦٥ء، خطوط غالب، ١٢٨)
"کٹاؤ میں سب سے بڑی احتیاط اس بات کی ہے کہ نوک برابر رہے۔" (١٩٠٨ء، صبح زندگی، ١٧١)
"حیدر آباد کی دوسری صنعتوں میں بدری بٹن، گلبرگہ کے جوتے، کٹاؤ کے پاندان شامل تھے۔" (١٩٦٦ء، شہر نگاراں، ٦٥)
محاورات
- چولھے کے آگے گاؤں چکی کے آگے گاؤں۔ پنچوں میں بیٹھوں تو ناک کٹاؤں