کھنچنا کے معنی
کھنچنا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ کِھنْچ (ن غنہ) + نا }
تفصیلات
iسنسکرت زبان سے ماخوذ ہے، اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور فعل لازم استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٦٥ء کو "جواہر اسرار اللّٰہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["اجتناب کرنا","الگ رہنا","اینچا جانا","جکڑا جان","دور رہنا","عرق نکلنا","متفکر ہونا","کسا جانا","کنارہ کش ہونا"]
اسم
فعل لازم
کھنچنا کے معنی
خاکساروں کی طرف سے جب گزرتا ہے کبھی یوں اکڑ جاتا ہے گویا کھنچ رہا ہے بند بند (١٩٢٩ء، فکرونشاط، ٧٥)
بفرمان یدُاللّٰہ روز رجعت کھینچ کے آیا تھا پڑا ہے آج تک لرزہ سا جسم مہر تاباں پر (١٩٣٥ء عزیز لکھنؤی، صحیفہ ولا، ١٠٨)
ان سے ملیے تو عافیت برباد ان سے کھینچئے تو زندگی بیکار (١٩٢٤ء نقس و نگار، ١٤١)
"غرض اسی طریقہ سے کسی نہ کسی طرح کھنچی چلی جاتی تھیں" (١٩٤٧ء، مضامین فرحت، ٩٠:٧)
مجھ پہ بھی لیکن ہوا طُرفہ اثر روح کا ست، پتیوں میں کھنچ گیا (١٩٢٠ء روح ادب، ٣٤)
"البتہ یہ ضرور تھا کہ سفر کھنچتا ہی جا رہا تھا. کہ دادی کا گھر کب آئے گا" (١٩٧٠ء قافلہ شہیدوں کا، ٣٧٨)
جان جا دم گھٹ رہا ہے کھینچتی ہے رگ رگ سے روح کس کشاکش میں پڑی ہے زندگانی وقت نزع (١٨٧٠ء دیوان شرف (آغا حجو)، ١٣٤)
"اسلامی سلطنت کی عظمت و جبروت کا . نقشہ آنکھوں کے کھینچ گیا۔ (١٩٤٣ء، حیات شبلی، ٢٧٣)
"انگریزی اسکول اور کالج میں مسلمان لڑکے کھنچ رہے تھے" (١٩٤٣ء)
"کسی داخلی تحریک و ترغیب سے میں اردو شاعیر کی طرف کھینچتا تھا" (١٩٤٥ء، روحِ کائنات، ٨)
"خاں صاحب کا آخری جواب یہ تھا کہ مجھے دلائل سننے کی ضرورت نہیں، کھینچی ہوئی لکیر نہیں مٹے گی" (١٩٢٥ء مجالس حُسنہ، ٨١:١)
اس نئے طریقے میں ایک اور دشواری حروفِ علّت کی کھنچی ہوئی آواز کے لیے ایک مقررہ نشان لگانے کی ہے" (١٨٨٥ء، خطبات گارساں دتاسی، ٢٥٨)
کھنچنا english meaning
same as کھچنا khich|na
شاعری
- زہگیر کا کھنچنا تھا کہ سرکش ہوئے رہگیر
ہونے لگا پیہم لب معشوق ہر ایک تیر
محاورات
- تلوار کھنچ جانا یا کھنچنا
- جنتری میں کھنچنا یا نکلنا
- خط کھنچنا
- خنجر کھچ جانا ۔ کھنچنا
- دل کھنچ جانا۔ کھنچنا