گونجنا کے معنی
گونجنا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ گُونْج (ن غنہ) + نا }
تفصیلات
iسنسکرت زبان کے اسم |گونج| کے ساتھ |نا| بطور لاحقۂ مصدر لگانے سے |گونجنا| بنا۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور مصدر استعمال ہوتا ہے۔ ١٨١٠ء کو "کلیات میر" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["آواز سے مکان کا بھر جانا","آواز نقارہ دُوبل کا پُر ہونا","آواز ہی آواز سنائی دینا","سانپ کا پھنکارنا","شیر کا گونجنا","صدائے گُنبد کا سرزد ہونا","نقارے دہل وغیرہ کی آواز سے مکان گنبد کوہ قضا کا آواز سے بھر جانا۔ یا پر آواز ہونا","کبوتر یا قمری کا مستی میں بولنا","کپڑے کو ہاتھ سے مل کر شکن ڈالنا","کسی کھانے کی چیز کو اس طرح ہاتھ سے ملنا کہ دیکھو کر نفرت ہو"]
گُونج گُونْجْنا
اسم
فعل لازم
گونجنا کے معنی
"قرۃ العین حیدر کے فقرے میرے ذہن میں گونج گئے۔" (١٩٨٠ء، زمین اور فلک اور، ٧٩)
"اقبال کی آوازیں بھی جدید اردو شاعری کی فضاؤں میں گونجنے لگیں۔" (١٩٨٩ء، شاعری کیا ہے، ٦٧)
"آپ کو ان شعرا کی عظیم و ضخیم شاعری، سمندر کی طرح لہراتی، جھومتی اور گونجتی ہوئی محسوس ہو گی۔" (١٩٨٤ء، سمندر، ٩)
"کم بخت کافر کانگرسیوں کے خلاف کوئی نعرہ نہ گونجتا۔" (١٩٦٢ء، آنگن، ٢٤١)
"الفاظ کے شکوہ کا یہ انداز ہے کہ گویا شیر گونج رہا ہے۔" (١٩٠٧ء، شعرالعجم، ٣٤٩:١)
"قمریاں خدا کی پیدا کی ہوئی جگہوں میں گونج رہی ہیں۔" (١٩٤٤ء، الف لیلہ و لیلہ، ٢٤:٥)
"بھونرے گونجتے تھے۔" (١٩٤٥ء، پرپرواز، ٥١)
"میں نے کوئی توجہ نہ دی کہ وہ کیا گنگنا رہا ہے اور اس نے بھی مجھ سے نہ پوچھا کہ میرے ذہن میں پنکج ملک کا گیت کیوں گونج رہا ہے۔" (١٩٨٨ء، یادوں کے گلاب، ١٦٢)
پراگندگی تھی اس انبوہ میں کہ گونجی بلائے سیہ کوہ میں (١٨١٠ء، میر، کلیات، ١٠٣٩)
بڑھے سینۂ دشت پر گونجتے گجگجاتے گرجتے ہوئے توپ خانے (١٩٦٢ء، ہفت کشور، ٢٦)
محاورات
- کانوں میں گونجنا