گھل کے معنی

گھل کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ گُھل }

تفصیلات

١ - گھلنا، کا صیغہ امر، تراکیب میں مستعمل۔, m["ادھر ادھر حرکت کرنا","گُھلنا کا"]

اسم

اسم نکرہ

گھل کے معنی

١ - گھلنا، کا صیغہ امر، تراکیب میں مستعمل۔

گھل کے جملے اور مرکبات

گھل گھل کر, گھل مل, گھل ملائی, گھل مل کر

شاعری

  • گدازِ عاشقی کا میر کے شب ذکر آیا تھا
    جو دیکھا شمع مجلس کو تو پانی ہوگئی گھل کر
  • دھوکا تھا جس کو سمجھے ہوئے میں شباب تھا
    دوچار دن میں گھل گیا جتنا خضاب تھا
  • گھل گھل کے مرچلا ہوں محبت کے روگ میں
    ڈالا ہے تیرے غم نے مجھے اس بروگ میں
  • غم میں تیرے راحت و آرام سے جاتے رہے
    گھل گئے ایسے کہ ہم سب کام سے جاتے رہے
  • سر گرم سوز عشق رہے ہے یہ مثل شمع
    تن گھل گیا ہے اور پگھلتی ہیں ہڈیاں
  • میں کہتا تھا عاشق نہ ہو مصحفی
    تو ایسی ہی باتوں میں تو گھل گیا
  • بہ گیا ہو کے لہو یوں یہ دل زار تمام
    آہ گھل گھل کے ہو جیسے کوئی بیمار تمام
  • بہار افروز میر گل کی مجھ کو چاہت نے
    بدن میرا اسی غم سے ہوا گھل گھل کے کانٹا ہے
  • گھل مل کے پلاتے ہو رقیبوں کو تو ساغر
    کیا میرے لیے زہر بھی گھولا نہیں جاتا
  • پانی ہوئے ہیں غم سے گھل گھل کے آہ دونوں
    نکلے ہیں اشک بن کر آنکھوں سے آہ دونوں

محاورات

  • آنکھوں میں سرمہ (کاجل) دینا۔ کھینچنا۔ کی تحریر دینا۔ گھلنا یا لگنا
  • استرہ / استرہ گھلانا
  • اہلے گھلے پھرنا
  • باتیں ایسی کہ لوہے کو پگھلائیں
  • بتاسے کی طرح بیٹھ (گھل) جانا
  • بدن گھل جانا
  • پتھر نہیں پگھلتے
  • پتھر کا پگھلنا
  • پتھر کا کلیجا (بھی) پگھل جانا یا پانی ہونا
  • جان گھل جانا یا گھلنا

Related Words of "گھل":