گھوٹنا کے معنی
گھوٹنا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ گھوٹ (و مجہول) + نا }
تفصیلات
iسنسکرت زبان سے ماخوذ اسم |گھوٹ| کے ساتھ |نا| بطور لاحقۂ مصدر لگانے سے |گھوٹنا| بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٨٦ء کو "دیوان میر حسن" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(گلا) دبانا","بار بار پڑھ کر ذہن نشین کرنا","حل کرنا","خوب یاد کرنا","محنت کرنا","مہرا کرنا","مہرے سے صفائی کرنا","کسی چیز سے رگڑ کر خوب چکنا کرنا","کوشش کرنا","کھرل یا کونڈی میں خوب باریک کرنا"]
اسم
فعل متعدی
گھوٹنا کے معنی
"جب پیاز سرخ ہو جاتی تو چاروں سیخیں اور چاروں بھیجے اس میں ڈال کر گھونٹ دیتے۔" (١٩٦٢ء، ساقی، کراچی، جولائی، ٤٩)
"انسان پتھروں کو توڑ کر . کھالوں کے گھونٹنے کے لیے آلات بناتا تھا۔" (١٩٥١ء، تاریخ تمدن ہند، ٢٠)
"حجام نے پھر استرا پھیرا، خوجی نے پھر ٹٹول کر کہا اور گھوٹو، ابھی کھونٹی باقی ہے۔" (١٨٨٠ء، فسانۂ آزاد، ٢٧٧:٢)
ابھر ابھر کے مٹے آہ! حوصلے اکثر کہ ہیں کمند سے گھونٹے گئے گلے اکثر (١٩١٠ء، سرور، جہاں آبادی، خمکدۂ سرور، ٢٦٩)
"فرد کے خیال پر وہ ایک دم ماضی کی دم گھوٹنے والی قضا سے لوٹ آئیں۔" (١٩٦٦ء، دو ہاتھ، ٢٢١)
"یہ سنگ دل انسان اس بے زبان بچی کو گھونٹ گھونٹ کر موت کے گھاٹ اتارے گا۔" (١٩٢٩ء، خاتون، ١٥)
"چلتے وقت والد صاحب نے دو کتابیں خرید دیں، الکلام اور سائل شبلی انہیں لا کر سیتا پور میں گھوٹنا شروع کیا۔" (١٩٧٤ء، معاصرین، ٦٦)
"اوپر بہت کچھ کڑوی کسیلی سنا گئی ہوں، مگر ایسی تخلیاں دل میں گھونٹی نہیں جاسکتیں۔" (١٩٤٤ء، حرف آشنا، ٦٦)
محاورات
- گلا گھوٹنا