آئی کے معنی
آئی کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ آ + ای }
تفصیلات
iسنسکرت زبان سے ماخوذ اردو زبان کے صدر |آنا| سے صیغہ حالیہ تمام مشتق ہے اردو میں بطور اسم اور اسم صفت بھی مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٨٠٢ء میں میر کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔, m["زندگی","داخل ہونا","دیکھئے: آ","زندگی کا اختتام"]
آنا آئی
اسم
صفت ذاتی ( مؤنث - واحد ), اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- ["جمع : آ[آ + ایں (ی مجہول)]","جمع استثنائی : آئے[آ + اے]"]
آئی کے معنی
[" نہ تو کچھ آئی کی شادی نہ گئی کا غم تھا خود طرحدار تھی جوبن تھا عجب دم خم تھا (١٨٦٤ء، واسوخت رعنا (شعلۂ جوالہ، ٤٠٩:٢))"]
[" دل کسی طرح چین پا جائے غیر کی آئی مجھ کو آ جائے (١٩٣٢ء، ریاض رضواں، ٢٧٨)"," لگا تو لاکھ منھ غیروں کو جو حق ہے وہ کہہ دیتے بہت ہم ضبط کرتے پر نہ آئی پر رہا جاتا (١٨٧٢ء، عاشق لکھنوی، فیض نشان، ٥٨)"]
آئی کے مترادف
اجل, قضا, مرگ
آجانا, آفت, آنا, آیو, اجل, بربادی, تباہی, خاتمہ, فتوٰی, فوتیدگی, قضا, مرگ, مصیبت, موت, وفات
آئی english meaning
(see under آنا)calamitycame (she)deathdoommisfortunethe inevitable
شاعری
- بہار رفتہ پھر آئی ترے تماشے کو!
چمن کو یُمنِ قدم نے ترے نہال کیا - صبح چمن میں اُس کو کہیں تکلیف ہو اے آئی تھی
رُخ سے گل کو مول لیا قامت سے سرو غلام کیا - صبح پیری شام ہونے آئی میر
تو نہ چیتا یاں بہت دن کم رہا - بُوئے کباب سوختہ آئی دماغ میں
شاید جگر بھی آتشِ غم نے جلا دیا - قسمت تو دیکھ شیخ کو جب لہر آئی تب
دروازہ شیرہ خانے کا معمور ہوگیا - جنوں میں اب کی کام آئی نہ کچھ تدبیر بھی آخر
گئی کل ٹوٹ میرے پاؤں کی زنجیر بھی آخر - کل وعدہ گاہ میں سے جوں توں کی ہم کو لائے
ہونٹھوں پہ جان آئی پر آہ وے نہ آئے - فکر دین میں اُس کی کچھ بن نہ آئی آخر
اب یہ خیال ہم بھی دل سے اُٹھا رکھیں گے - کیوں تری موت آئی ہیگی عزیز
سامنے سے مرے ارے جا بھی - آئی پری سی پردۂ مینا سے جام تک
آنکھوں میں تیری دخترِ رز کیا حیا نہ تھی
محاورات
- آئی (آئیں) نہ گئی (گئیں) کولے لگ گابھن ہوئی (ہوئیں)
- آئی (ہوئی) عقل جانا
- آئی بات رکتی نہیں
- آئی بات کو روکنا کند ذہن ہونا
- آئی بلا (کو) سر سے ٹالنا
- آﺌی بلا سر سے ٹالنا
- آئی بہو آیا کام گئی بہو گیا کام
- آئی بی عاقلہ‘ سب کاموں میں داخلہ
- آئی پر چوکے نہیں
- آئی پر نہ چوکے