آبلہ فرسا

{ آب + لَہ + فَرْ + سا }

تفصیلات

iفارسی زبان میں اسم |آبلہ| کے ساتھ فارسی مصدر |فرسودن| سے صیغہ امر |فرسا| لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٨٦١ء کو "دیوان ناظم" میں مستعمل ملتا ہے۔

[""]

اسم

صفت ذاتی

آبلہ فرسا کے معنی

١ - [ لفظا ] چھالوں کو رگڑنے اور کچلنے والا، بہت تگ و دو کرنے والا، کثرت سے چلنے والا، (مراد) جس کے پاؤں میں چھالے پڑے ہوں۔

 فخر سے خار بیابان نے جگہ دی سر پر جس طرف سیر کو میں آبلہ فرسا اٹھا (١٩٠٠ء، نظم دل افروز، تسلیم، ٨٤)