آخر کے معنی
آخر کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ آ + خِر }{ آ + خَر }
تفصیلات
iیہ لفظ عربی زبان کے ثلاثی مجرد کے باب سے اسم فاعل ہے اور اردو میں بطور اسم صفت، اسم مذکر اور متعلق فعل مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٠٩ء میں "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔, iیہ لفظ عربی زبان کے ثلاثی مجرد کے باب سے اسم فاعل ہے۔ اور اردو میں بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٨٦١ء میں "کنٹاپ" کے قلمی نسخہ میں مستعمل ملتا ہے۔, ١ - اور۔ ایک اور۔ دوسرا, m["(آخَرّ) سب سے پیچھے بنایا گیا","(گنوار) آکھِر","آخر کار","اول کا نقیض","پچھلا سرا","داہستان میں ایک مقام","زائِد حسن کلام کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے کچھ تو کرنا چاہئے آخِر","قریب اختتام","گھوڑے کے رہنے کا مکان","کالر کی ہڈی"]
اخر آخِر آخَر
اسم
اسم کیفیت ( مذکر - واحد ), صفت ذاتی, متعلق فعل, صفت ذاتی ( مذکر - واحد ), صفت
اقسام اسم
- ["جنسِ مخالف : آخِرہ[آ + خِرَہ]","جمع استثنائی : آخِرِین[آ + خِرِیں]"]
- جمع غیر ندائی : آخَروں[آ + خَروں (واؤ مجہول)]
آخر کے معنی
[" اے زندگی آخر نہیں تیری تگ و دو کا جس طرح کہ رہتی ہے سرگرم سفر موج (١٩٣٨ء، سلیم پانی پتی، افکار سلیم، ٦٣٨)","\"ہو چکے ہیں تم سے آگے دستور سو پھرو زمین میں تو دیکھو کیسا ہوا آخر جھٹلانے والوں کا۔\" (١٧٩٠ء، ترجمہ قرآن، شاہ عبدالقادر، ٦١)"]
[" امی بھی ہر اک علم کے ماہر بھی یہی ہیں گنجینہ اول بھی ہیں آخر بھی یہی ہیں (١٩١٢ء، شمیم، ریاض شمیم، ٦:٢)","\"اب کے اس کا نمبر آخر ہو گیا۔\" (١٨٩٥ء، فرہنگ آصفیہ، ١٢٦:١)","\"ہر سماں فنا ہونے والا ہے، خوشی ختم ہو گی اور رنج آخر۔\" (١٩٣٦ء، گرداب حیات، ١٠٨)"," اک روز ہوا میں در پہ حاضر تھی شام قریب دن تھا آخر (١٨٠٤ء، اسیر (امیراللغات، ٦٩:١))"]
["\"کھاؤ پیو مزے اڑاؤ آخر کل مرنا ہے۔\" (١٩٢٥ء، اودھ پنچ، لکھنؤ، ١٠، ٢٠، ١٠)"," زاہد مے طہور بھی آخر شراب ہے مجھ کو تو منع کرتا ہے تو کب مجاز ہے (١٩١٠ء، جذباتِ نادر، ٢، ٢٥٢)","\"آخر یمن کے شاہزادے کو خانساماں اور بہزاد خان کو میر بخش . بختیار کی فوج کا کیا۔\" (١٨٠٢ء، باغ و بہار، ٢٤٨)","\"نہ معاف کرونگی تو کرونگی کیا آخر۔\" (١٨٨٠ء، فسانہ آزاد، ١٨:٤)"," کچھ تو جاڑے میں چاہیے آخر تانہ دے یاد زمہریر آزاد (١٨٦٩ء، غالب، دیوان، ١٢٦)"," تم اپنے ظلم سے آخر نہ باز آؤ گے چلا نظیر سے لیجئے سلام رخصت کا (نظیر اکبر آبادی (فرہنگ آصفیہ، ١٣٥:١))","\"میں یہ سمجھنے سے بالکل قاصر ہوں کہ آخر معاملہ کیا ہے۔\" (١٩٤٤ء، نواب صاحب کی ڈائری، ١٣١)"]
تلاش دِل میں سرگرمی تو ناصح امر آخر ہے مجھے ہے گفتگو کمبخت کے ہونے نہ ہونے میں (١٩٢٧ء، شاد، میخانہ الہام، ٢٠٦)
آخر کے مترادف
سرا, انتہا, انجام
انت, انتہا, انجام, اور, بعد, پار, ثمرہ, حاصل, حد, ختم, دوسرا, زیادہ, سماپت, نتیجہ, نہایت
آخر کے جملے اور مرکبات
آخر آخر میں, آخر کا مہینہ, آخر کو, آخرالامر, آخر الامر, آخر الزماں, آخر آخر, آخردموں, آخر زمانی, آخر شب, آخر الذکر, آخر وقت
آخر english meaning
Anotherthe otherat lastat lengthcloseconclusionfinalhindmostLastlatern.m. closeproduce of a gardenrevenue derived from gardensultimate
شاعری
- الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا - بس طبیب اُٹھ جا مری بالیں سے مت دے درد سر
کام جاں آخر ہُوا اب فائدہ تدبیر کا - سب شورِ مادمن کو لیے سر میں مرگئے
یاروں کو اس فسانے نے آخر سُلا دیا - کیا پوچھو ہو کیا کہیئے میاں دل نے بھی کیا کام کیا
عشق کیا ناکام رہا آخر کو کام تمام کیا - مستی میں شکل ساری نقاش سے کھینچی پر
آنکھیں کو دیکھ اُس کی آخر خمار کھینچا - اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیمارئ دل نے آخر کام تمام کیا - دل نے سر کھینچا دیار عشق میں اے بوالہوس
وہ سراپا آرزو آخر جواں مارا گیا - کب نیاز عشقِ ناز حسن سے کھینچے ہے ہاتھ
آخر آخر میر سر بر آستاں مارا گیا - کیا کہوں کیا طرحیں بدلیں چاہ نے آخر کو میر
تھا گرہ جو درد چھاتی ہیں سو اب غم ہوگیا - تھی چشم دمِ آخر وہ دیکھنے آوے گا
سو آنکھیں میں جی آیا پردہ نہ نظر آیا
محاورات
- آخر آدمی نے کچا دودھ پیا ہے
- آخر اپنی اصالت پر آگیا
- آخر تین تیرہ ہو جائینگے
- آخر گل پھولا
- آخر مرو گے روپیہ جوڑ جوڑ کیا کرو گے
- آخر میں کوئیں میں تو نہیں گئی تھی
- آخر کر دینا
- آخر کرنا
- آخر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
- آخر کیا کروں