آخری کے معنی

آخری کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ آ + خِری }

تفصیلات

iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق، اسم فاعل |آخِر| کے ساتھ فارسی قاعدہ کے تحت |ی| بطور لاحقۂ نسبت لگانے سے |آخری| بنا اور اردو میں بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٩٧ء، میں "پنج گنج" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["آخر کار","اخیر کا","اس سرے یا اُس سرے کا","بعد کا","منسوب بہ آخر"]

اخر آخِر آخِری

اسم

صفت نسبتی

آخری کے معنی

١ - (سلسلے میں) اخیر کا، سب سے بعد کا، انتہائی، اختتامی، خاتمے کا۔

 اس کے کوچے میں مری خاک کو کرنا برباد آخری تجھ سے وصیت ہے نسیم سحری (١٩١٠ء، سرور جہاں آبادی، خمکدہ سرور، ٢٠)

٢ - قطعی، مختتم، دو ٹوک، جیسے : آخری بات کہہ دو کتنے تک لینا ہے۔

"جب تک |آخری| فیصلہ نہ ہو ان کا بال نہ بیکا ہو" (١٩٢٠ء، عزیزہ مصر، ٣٣)

آخری کے جملے اور مرکبات

آخری ردا, آخری طلاق, آخری کھرچن, آخری مراسم, آخری ہچکی, آخری دیدار, آخری زمانہ, آخری سواری, آخری گھڑی, آخری ملاقات, آخری وقت, آخری بہار, آخری پوشاک, آخری جمعہ, آخری دور, آخری دم

آخری english meaning

lastultimate; of or belonging to the end; latterextreme

شاعری

  • اب تک دلِ خوش فہم کو ہیں تجھ سے اُمیدیں
    یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لئے آ
  • رہِ وفا میں کوئی آخری مقام نہیں
    شکستِ دل کو محبت کی انتہا نہ سمجھ
  • وہ بھی شاید روپڑے ویران کاغذ دیکھ کر
    میں نے اس کو آخری خط میں لکھا کچھ بھی نہیں
  • حنا کا اب نہ بہانہ تراش میں خوش ہوں
    کہ دل کا آخری قطرہ بھی میرے کام آیا
  • دلرُبا ہوتے ہیں جن کے آخری لمحاتِ زیست
    اکثر ان پھولوں سے دامن بھرلیا کرتا ہوں میں
  • نزع کی آخری ہچکی کو ذرا غور سے سُن
    زندگی بھر کا خلاصہ اسی آواز میں ہے
  • تمہیں مجھ سے محبت ہے

    محبت کی طبیعت میں یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے!
    کہ یہ جتنی پرانی جتنی بھی مضبوط ہوجائے
    اِسے تائیدِ تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے

    یقیں کی آخری حد تک دِلوں میں لہلہاتی ہو!
    نگاہوں سے ٹپکتی ہو‘ لہُو میں جگمگاتی ہو!
    ہزاروں طرح کے دلکش‘ حسیں ہالے بناتی ہو!
    اِسے اظہار کے لفظوں کی حاجت پھر بھی رہتی ہے

    محبت مانگتی ہے یوں گواہی اپنے ہونے کی
    کہ جیسے طفلِ سادہ شام کو اِک بیج بوئے
    اور شب میں بارہا اُٹھے
    زمیں کو کھود کر دیکھے کہ پودا اب کہاں تک ہے!
    محبت کی طبیعت میں عجب تکرار کی خو ہے
    کہ یہ اقرار کے لفظوں کو سننے سے نہیں تھکتی
    بچھڑنے کی گھڑی ہو یا کوئی ملنے کی ساعت ہو
    اسے بس ایک ہی دُھن ہے
    کہو … ’’مجھ سے محبت ہے‘‘
    کہو … ’’مجھ سے محبت ہے‘‘

    تمہیں مجھ سے محبت ہے
    سمندر سے کہیں گہری‘ ستاروں سے سوا روشن
    پہاڑوں کی طرح قائم‘ ہواؤں کی طرح دائم
    زمیں سے آسماں تک جس قدر اچھے مناظر ہیں
    محبت کے کنائے ہیں‘ وفا کے استعارے ہیں
    ہمارے ہیں
    ہمارے واسطے یہ چاندنی راتیں سنورتی ہیں
    سُنہرا دن نکلتا ہے
    محبت جس طرف جائے‘ زمانہ ساتھ چلتا ہے
  • کچھ ایسی بے سکونی ہے وفا کی سرزمینوں میں
    کہ جو اہلِ محبت ک سدا بے چین رکھتی ہے
    کہ جیسے پھول میں خوشبو‘ کہ جیسے ہاتھ میں پارا
    کہ جیسے شام کا تارا
    محبت کرنے والوں کی سحر راتوں میں رہتی ہے
    گُماں کے شاخچوں میں آشیاں بنتا ہے اُلفت کا!
    یہ عینِ وصل میں بھی ہجر کے خدشوں میں رہتی ہے
    محبت کے مُسافر زندگی جب کاٹ چکتے ہیں
    تھکن کی کرچیاں چنتے ‘ وفا کی اجرکیں پہنے
    سمے کی رہگزر کی آخری سرحد پہ رکتے ہیں
    تو کوئی ڈوبتی سانسوں کی ڈوری تھام کر
    دھیرے سے کہتا ہے‘
    ’’یہ سچ ہے نا…!
    ہماری زندگی اِک دوسرے کے نام لکھی تھی!
    دُھندلکا سا جو آنکھوں کے قریب و دُور پھیلا ہے
    اِسی کا نام چاہت ہے!
    تمہیں مجھ سے محبت تھی
    تمہیں مجھ سے محبت ہے!!‘‘
    محبت کی طبیعت میں
    یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے!
  • آنے والا کل

    نصف صدی ہونے کو آئی
    میرا گھر اور میری بستی
    ظُلم کی اندھی آگ میں جل جل راکھ میں ڈھلتے جاتے ہیں
    میرے لوگ اور میرے بچّے
    خوابوں اور سرابوں کے اِک جال میں اُلجھے
    کٹتے‘ مرتے‘ جاتے ہیں
    چاروں جانب ایک لہُو کی دَلدل ہے
    گلی گلی تعزیر کے پہرے‘ کوچہ کوچہ مقتل ہے
    اور یہ دُنیا…!
    عالمگیر اُخوّت کی تقدیس کی پہرے دار یہ دنیا
    ہم کو جلتے‘ کٹتے‘ مرتے‘
    دیکھتی ہے اور چُپ رہتی ہے
    زور آور کے ظلم کا سایا پَل پَل لمبا ہوتا ہے
    وادی کی ہر شام کا چہرہ خُون میں لتھڑا ہوتا ہے

    لیکن یہ جو خونِ شہیداں کی شمعیں ہیں
    جب تک ان کی لَویں سلامت!
    جب تک اِن کی آگ فروزاں!
    درد کی آخری حد پہ بھی یہ دل کو سہارا ہوتا ہے
    ہر اک کالی رات کے پیچھے ایک سویرا ہوتا ہے!
  • اکیسیوں صدی کے لیے ایک نظم

    سَمے کے رستے میں بیٹھنے سے
    تو صرف چہروں پہ گرد جمتی ہے
    اور آنکھوں میں خواب مرتے ہیں
    جن کی لاشیں اُٹھانے والا کوئی نہیں ہے!

    ہماری قسمت کے زائچوں کو بنانے والا کوئی ہو شاید
    پران کا مطلب بتانے والا کوئی نہیں ہے!
    وہ سارے رسّے روایتوں کے کہ جن کی گرہیں کَسی ہوئی ہیں
    ہمارے ہاتھوں سے اور پاؤں سے لے کے خوابوں کی گردنوں تک!
    ہماری رُوحوں میں کُھبتے جاتے ہیں
    اور ہم کو بچانے والا‘ چھڑانے و‌الا کوئی نہیں ہےِ
    زباں پہ زنجیر سی پڑی ہے
    دلوں میں پھندے ہیں
    اور آنکھوں میں شامِ زنداں کی بے کَسی ہے
    چراغ سارے بجھے پڑے ہیں جلانے والا کوئی نہیں ہے!

    مرے عزیزو‘ مجھے یہ غم ہے
    جو ہوچکا ہے بہت ہی کم ہے
    سَمے کے رَستے میں بیٹھے رہنے کے دن بھی اَب ختم ہورہے ہیں
    بچے کھُچے یہ جو بال و پَر ہیں
    جو راکھ داں میں سُلگنے والے یہ کچھ شرر ہیں
    ہمارے بچّوں کے سر چھپانے کو جو یہ گھر ہیں
    اب ان کی باری بھی آرہی ہے
    وہ ایک مہلت جو آخری تھی
    وہ جارہی ہے…
    تو اس سے پہلے ‌زمین کھائے
    ہمارے جسموں کو اور خوابوں کو
    اور چہروں پہ اپنے دامن کی اوٹ کردے
    یہ سرد مٹی جو بُھربُھری ہے
    ہماری آنکھوں کےزرد حلقے لہُو سے بھردے!

    مرے عزیزو چلو کہ آنکھوں کو مَل کے دیکھیں
    کہاں سے سُورج نکل رہے ہیں!
    سمے کے رستے پہ چل کے دیکھیں

محاورات

  • آخری چہار شنبہ کر دینا

Related Words of "آخری":