آداب[1] کے معنی
آداب[1] کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ آ + داب }
تفصیلات
iیہ اصلاً عربی زبان کا لفظ ہے، عربی اسم |ادب| کی یہ عربی قواعد کے تحت جمع ہے۔ اردو میں بطور جمع اور واحد، دونوں طرح مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٧٣٩ء، میں "کلیات سراج" میں مستعمل ملتا ہے۔
["ادب "," آداب"]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد، جمع )
آداب[1] کے معنی
"دشمن کو معلوم ہے کہ شاہی دربار اور جلوس کے رسوم و آداب خاص ہوتے ہیں۔" پاس اس کا بعد مرگ ہے آداب عشق سے بیٹھا ہے میری خاک سے اٹھ کر غبار الگ (١٩٢٣ء، سیرۃ النبی، ٥:٣)(١٨١٠ء، میر، کلیات، ٧٩:١)
کوچہ یار میں جاؤں گا تو مثل خورشید پاس آداب سے میں سر ہی کے بل جاؤں گا (١٨٥٤ء، ذوق (فرہنگ آصفیہ، ١٢٩:١))
بیٹھنے اٹھنے نہیں دیتا ہمیں آداب یار سجدے رکھتی ہے محبت کی شریعت کی نماز (١٨٦٧ء، رشک، د(ق)، ١١١)
الفت کے سبق دختر زہرا نے پڑھائے اخلاق کی تعلیم دی آداب سکھائے (١٩٧٤ء، مراثی نسیم، ١٤٧:٣)
مجھ سے بے قاعدہ کیوں تو نے کلام آج کیا میرے آداب کو بھی جھک کے سلام آج کیا (١٩١٢ء، شمیم، ریاض شمیم، ٢٣:٦)
"القاب آداب کچھ نہیں اس طرح شروع ہوتا ہے۔" (١٩٢٤ء، اختری بیگم، ١٣)
"ایک دفعہ ایک بدو خدمت اقدس میں آیا . اس کو پیشاب کی حاجت معلوم ہوئی آداب مسجد سے واقف نہ تھا وہیں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے لگا۔" (١٩١٢ء، سیرۃ النبی، ٣٥٧:٢)
"مطابق الشرع قانون کے پانچ حصے ہیں۔ (١) اعتقاد (٢) آداب (٣) عبادت (٤) معاملات (٥) عقوبات۔" (١٩٢٨ء، حیات طیبہ، حیرت، ٢١٤)
آداب[1] کے جملے اور مرکبات
آداب و القاب, آداب تسلیمات, آداب حرب, آداب شاہی, آداب صحبت, آداب معاشرت