آس پاس کے معنی
آس پاس کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ آس + پاس }
تفصیلات
iسنسکرت سے ماخوذ اردو اسم |پاس| کے ساتھ سابقہ آس بطور تابع لگنے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور متعلق فعل مستعمل ہے۔ ١٦١١ء میں "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["ادھر اُدھر","ارد گرد","اورے دھورے","پاس پڑوس","چاروں طرف","چو طرفا","چہوں اور","قرب و جوار","گردا گرد","ہر طرف"]
اسم
متعلق فعل
آس پاس کے معنی
١ - اردگرد، ادھر ادھر، گرد و پیش، قریب نزدیک۔
"اعضائے جسم کی تشریح تو اس قدر بے جھجک ہو کر بیان فرماتی ہیں کہ شر و حیا کہیں آس پاس بھی نہیں ہوتی۔" (مضامین عبدالماجد، دریابادی، ١٩٢٣ء، ٥٧)
آس پاس کے مترادف
قریب, گرد و نواح, گرد و پیش, قرب و جوار
اردگرد, پڑوس, پڑوسی, جوار, چوگرد, ساتھی, قریب, گرداگرد, گردوپیش, گردونواح, نزدیک, ہمراہی
آس پاس english meaning
circuitclosenessNeighbourhoodto exhibitto exposeto offerto presentvicinity
شاعری
- صحرا کے ڈر نے ہم کو نظر بند کردیا
دیواریں کھینچ دی گئیں ہر گھر کے آس پاس - کھن کے لگن ، شمع چاند، تارے پتنگ کے نمن
اڑتے ہیں آس آس پاس عشق تھے بے اختیار - کافر ہے کون ہم میں سے مومن پھرے ہے تو
کعبے کے آس پاس تو میں دل کے آس پاس - دور سے جلتے ہیں پر جبریل
عقل کل آس پاس پھرتی ہے - ملیا گردیوں کر قبیلہ ہجوم
سپورن کے جوں آس پاس نجوم - کیا حال کہوں کوئی آس پاس نہیں
شریک غم فقط اک دل اسے حواس نہیں - ہر خام طبع دور رہا مجھ سے بے نظیر
ناقص نہ بس سکا کبھی کامل کے آس پاس - کندن کے گڑ کتے سو جوبن ہے عین تیرے
ہور آس پاس انن کے ہے جیوں حصار موتی - مثل بنیٹی آہ کا چکر سا باندھ دوں
پھرنے دے گر وہ اپنے مجھے سر کے آس پاس - کھن کے لگن‘ شمع چاند تارے پتنگ کے نمن
اڑتے ہیں اس آس پاس عشق تھے بے اختیار
محاورات
- آپ گئے اور آس پاس
- آس پاس برسے دلی پڑی ترسے
- آس پاس پھرنا
- ایک تو گھر گھالوں اپنا دوسرے آس پاس (پاس پڑوس)
- بھلے میاں الیاس۔ آپ گئے سوگئے کھویا آس پاس