آسائش کے معنی
آسائش کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ آ + سا + اِش }
تفصیلات
iیہ لفظ فارسی مصدر|آسودن| سے حاصل مصدر مشتق ہے۔ اردو میں داخل ہو کر بھی اسی طرح مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦١١ء میں قلی قطب شاہ کے ہاں مستعمل ملتا ہے۔, m["از آسودن","خوش حالی","خوش معاشی"]
آسُودَن آسائِش
اسم
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : آسائِشیں[آ + سا + اِشیں (ی مجہول)]
- جمع غیر ندائی : آسائِشوں[آ + سا + اِشوں (و مجہول)]
آسائش کے معنی
"مکان تھا بہت وسیع مگر مکینوں کی آسائش کے لیے اتنا موزوں نہ تھا۔" (١٩٣٢ء، میدان عمل، ١٣)
"کچھ دنوں الور میں انھوں نے عزت اور آسائش سے بسر کی۔" (١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ١٨٤)
آسائش english meaning
Easerestreposequiettranquillity; conveniencecomfort; indulgenceenjoyment(life of) luxurycalmcomforteasefacilityrepose ; resttranquillity
شاعری
- منجے پیو یاد تھے آسائش وسکھ دلمیں بھریا
عیش کا وقت رہے غم کا جنس رانے جائے - غضب ہے منزل ہستی می آسائش طلب ہونا
ہجوم خواب رہرونے ہےآخر خلل پایا - نہ پائے بائے آسائش جہاں میں ہم نے تو آکر
نہ سوئے اس سرائے تنگ میں ہم پاؤں پھیلا کر
محاورات
- ہر کہ پدر ندارد سایہ سرندارد۔ ہر کہ پسر ندارد نور نظر ندارد۔ ہر کہ برادر ندارد قوت بازو ندارد۔ ہر کہ زن ندارد آسائش تن ندارد۔ وہر کہ ایں ہمہ ندارد ہیچ غم ندارد