آشوب کے معنی

آشوب کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ آ + شوب (واؤ مجہول) }

تفصیلات

iفارسی مصدر |آشفتن| سے فعل متعدی |آشوبیدن| بنا جس سے یہ حاصل مصدر ہے۔ اردو زبان میں بطور اسم اور گاہے بطور صفت بھی مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٧١٣ء میں فائز کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔, m["آنکھ کی سرخی اور گدلا پن","از (آشفتن ۔ آشوبیدن) مرکبات میں جیسے شہر آشوب، پر آشوب","از (آشفتن ۔ آشوبیدن) مرکبات میں جیسے شہر آشوب، پرآشوب","اسم کے ساتھ مل کر فاعل بنا دیتا ہے۔ جیسے شہر آشوب","شور و غوغا","غل غپاڑا","فتنہ و فساد","ہل چل"]

آشفتن آشوبیدن آشوب

اسم

اسم حاصل مصدر ( مذکر ), صفت ذاتی

اقسام اسم

  • ["جمع غیر ندائی : آشوبوں[آ + شو (و مجہول) + بوں (و مجہول)]"]
  • ["واحد غیر ندائی : آشوبی[آ + شو (واؤ مجہول) + بی]","جمع غیر ندائی : آشوبوں[آ + شو (واؤ مجہول) + بوں (واؤ مجہول)]"]

آشوب کے معنی

["١ - شور غوغا، ہنگامہ۔","٢ - فتنہ و فساد۔","٣ - اذیت، تکلیف۔","٤ - آفت، بلا مصیبت۔","٥ - تلاطم، اضطراب۔","٦ - ڈر، خوف (پلیٹس، جامع اللغات 41:1)","٧ - آنکھ دکھنے کی کیفیت، آنکھ کی سرخی جو دکھنے کی وجہ سے ہو، درد چشم۔"]

[" ستم کی مشق میں اندیشہ فردانہ کر ظالم غریبوں کی سنے گا کون آشوب قیامت میں (١٩٣٥ء، عزیز، انجم کدہ، ٨٧)","\"خاص اسپین کی حدود اس آشوب سے پاک تھی۔\" (١٩١٤ء، شبلی، مقالات، ٢٣:٥)"," تیرے قدموں کی قسم ہم سب ازل سے مست ہیں سرگرانی کی شکایت ہے نہ آشوب خمار (١٩٣٣ء، نظم طباطبائی، ٢٧)","ع کہتی تھی ہر اک سوں وو آشوب جاں (١٧١٣ء، فائز، دیوان، ٢٠٦)"," آشوب بحر ہستی کیا جانیے ہے کب سے موج و حباب اٹھ کر لگ جاتے ہیں کنارے (١٨١٠ء، میر، کلیات، ٨٣١)","\"غزوہ خیبر میں جب آپ نے علم عطا فرمانے کے لیے حضرت علی بن ابی طالب کو طلب فرمایا تو معلوم ہوا کہ ان کی آنکھوں میں آشوب ہے۔\" (١٩٢٣ء، سیرۃ النبی، ٥٦٨:٣)"]

["١ - بہروپیا، بناوٹی طور پر کسی کا بھیس بھرنے والا۔ (پلیٹس)"]

آشوب کے مترادف

ہنگامہ

آفت, بلوہ, پریشانی, خوف, شور, شورش, طوفان, غدر, غل, غوغا, فتنہ, فساد, گھبراہٹ, وحشت, ڈر, ہلڑ, ہنگامہ

آشوب english meaning

a redness and swelling of the eyesa tempestdeciverdisturbancedreadill-luckto get sick ofUproar

شاعری

  • افسردہ نہ تھا ایسا کہ جوں آب زدہ خاک
    ندی تھا‘ بلا تھا‘ کوئی آشوب جہاں تھا
  • آنکھ کے لڑتے تری آشوب سا برپا ہوا
    زلف کے درہم ہوئے اک جمع برہم ہوگیا
  • مدت ہوئی تھی بیٹھے جوش و خروش دل کو
    ٹھوکر نے اس نگہ کی آشوب پھر اُٹھائے
  • لڑتی ہے اس کی چشم شوخ جہاں
    ایک آشوب واں سے اٹھتا ہے
  • کاش تیرے غم رسیدوں کو بلاویں حشر میں
    ظلم ہے اک خلق پُر آشوب ان کی آہ کا
  • ستم کی مشق میں اندیشہ فردانہ کر ظالم
    غریبوں کے سنے گا کون آشوب قیامت میں
  • ناظم الملک بہادر وہ جناب عالی
    دب گئے جس سے زمانے کے سب آشوب وفتن
  • تیرے دل میں گر نہ تھا آشوب غم کا حوصلہ
    تونے پھر کیوں کی تھی میری گم گساری ہاے ہاے
  • آشوب بحر ہستی کیا جانیے ہے کب سے
    موج و حباب اٹھ کر لگ جاتے ہیں کنارے
  • پی ہو مے تو لہو پیا ہوں میں
    محتسب آنکھ پر ہے کچھ آشوب

Related Words of "آشوب":