احتیاط کے معنی
احتیاط کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ اِح + تِیاط (کسرہ ت مجہول) }
تفصیلات
iعربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب افتعال المقل العین اجوف واوی سے مصدر اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٧٣٢ء کو "کربل کتھا" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["اقدام عمل سے پہلے پوری پوری توجہ","انجام کار کی بصیرت","دور اندیشی","سوجھ بوجھ","غور و تامل","لوگوں کی نظر یا اطلاع سے بچ کر کسی کام کا اہتمام","نقصان یا ضرر سے بچانے یا بچنے کا خیال و لحاظ","کنارہ کشی","ہوش و حواس سے سمجھ سوچ کر اقدام یا فیصلہ"]
حوط اِحْتِیاط
اسم
اسم حاصل مصدر ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : اِحْتِیاطیں[اِح + تِیا + طیں (ی مجہول)]
- جمع غیر ندائی : اِحْتِیاطوں[اِح + تِیا + طوں (و مجہول)]
احتیاط کے معنی
"مولوی چراغ علی نے اپنی کتاب کے تاریخی . حصے میں بڑی محنت اور احتیاط صرف کی ہے۔" (١٩٣٥ء، چند، ہمعصر، ٤٣)
"یہ طرز احتیاط کے خلاف ہے۔" (١٩١٠ء، فلپانا، ٧٨)
احتیاط اس قدر اس کی تو عبث کرتا ہے جسم آخر ہے ترا خاک، کچھ اکسیر نہیں (١٨١٦ء، دیوان ناسخ، ٦٣:١)
"اس احتیاط کی ضرورت تھی اگر کوئی بھی دیکھ لیتا تو غل مچا دیتا۔" (١٩٢٠ء، عزیزہ مصر، ٢٢)
صبر کر اے دل خدا کے واسطے ہائے ظالم اک ذرا سی احتیاط (١٩٠٦ء، تیر و نشتر، ٢٩)
انجم ڈبو نہ دے یہ کہیں آبرو تری لازم ہے تجکو دیدہ پرنم سے احتیاط (١٩٠٥ء، دیوان انجم، ٧٠)
ہم نے تو کی نہ تھی الم و غم سے احتیاط پھر کیا سبب کہ ان کو ہوئی ہم سے احتیاط (١٩٠٥ء، دیوان انجم، ٧٠)
"بیس برس تک مصروف خدمت رہتے ہیں، ٦ برس فوج، نظام اور احتیاط (رزرو) میں، ٨ برس رولف میں اور ٦ برس تک مستحفظ میں۔" (١٨٨٨ء، ماہنامہ حُسن، ٢٢:٥،١)
احتیاط کے مترادف
پرہیز, خبرداری, عاقبت اندیشی
اجتناب, بچاؤ, بچنا, پرہیز, چوکسی, چوکی, حَاطَ, حزم, حفاظت, خبرداری, دوری, ضبط, نگہبانی, کترانا, ہوشیاری
احتیاط english meaning
cautioncarescrupulousnessattentionhead; vigilance; precaution; circumspectionCautioncircumspectionforesightheedto receive with both hands open and stretched out together
شاعری
- پتّھر نہ پھینک دیکھ ذرا احتیاط کر
ہے سطحِ آب پر کوئی چہرہ بنا ہوا - ضرورتوں کے اندھیرے میں احتیاط سے چل
یہ وہ جگہ ہے جہاں ہمسفر بدلتے ہیں - یہ بارگاہِ محبّت ہے‘ میری خلوت ہے
مرے حریف‘ قدم احتیاط سے رکھنا! - بکھروں گا ایک بار تو نہ آسکوں گا ہاتھ
اے دوست احتیاط سے ٹھوکر لگا مجھے! - دامن کو چاک کیجئے اس احتیاط سے
اہلِ جہاں کو زخمِ جگر کا گماں نہ ہو - مناؤ جشنِ بہاراں‘ تم اس احتیاط کے ساتھ
کسی چراغ کے جلنے سے کوئی گھر نہ جلے - میں وضع احتیاط کا قائل تو ہوں‘ مگر
آنسو نکل پڑے تجھے غم خوار دیکھ کر - ہوئی جو صلح تو اب احتیاط یہ کیسی
تکلفات کو تہ کیجیے ملے تو ملے - ضروری ہے ہمیں تو احتیاط اپنی خطاؤں سے
کسی کی گر خطا اس نے نہیں پکڑی نہیں پکڑی - پھر وضع احتیاط سے رکنے لگا ہے دم
بوسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کئے ہوئے
محاورات
- برماضی صلوٰة آئندہ را احتیاط
- گذشتہ را صلوٰة (آئندہ را احتیاط)
- گزشتہ را صلوٰة آئندہ را احتیاط