احساس کے معنی
احساس کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ اِح (کسرہ ا مجہول) + ساس }
تفصیلات
iعربی زبان سے اسم مشتق ہے، ثلاثی مزید فیہ کے باب افعال سے مصدر اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں ١٦٧٨ء کو غواصی کے ہاں مستعمل ملتا ہے۔, m["(حواس خمسہ میں سے) کسی حس کے ذریعے دریافت یا علم","(مجازاً) تصوف","(کسی بات کا) شعور وجدان","اندازہ یا قیاس وغیرہ (جو ذہنی تجربے یا فطری ذوق کے ذریعے ہو)","جذباتی تاثر","حواس خمسہ میں سے کسی کے ذریعے سے کچھ معلوم کرنا","سمجھ بوجھ","ماحول سے اعصاب کی اثر پذیری جس سے غم و غصہ، خوشی، رقت قلب یا ندامت وغیرہ پیدا ہو","محسوس کرنا","محسوسات سے متاثر ہونا"]
حسس حِس اِحْساس
اسم
اسم حاصل مصدر ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع : اِحْساسات[اِح (کسرہ مجہول) + سا + سات]
احساس کے معنی
بے حِس کو بخشا احساس تو نے دی مشتِ گل کو بوباس تو نے (١٩١١ء، کلیات اسماعیل، ٢٧)
بس نہ سہی احساس تو ہے کوئی ترس جب کھاتا ہے اپنی بگڑی حالت پر مرا دل بھر آتا ہے (١٩٢٧ء، قمر بدایونی، دیوان، ١٦١:٢)
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی ایجاد احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات (١٩٣٥ء، بال جبریل، ١٤٧)
"اسے کبھی یہ احساس نہ ہوا کہ کوئی نیک کام کر رہا ہے۔" (١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ١٩٩)
احساس کے مترادف
تاثر, علم, ہوش
آگاہی, اِدراک, تاثر, جذبہ, جوش, حَسَّ, خیال, درد, دُکاوت, شعور, علم, محسوسات, ہمدردی, ہوش
احساس کے جملے اور مرکبات
احساس برتری, احساس کمتری, احساس محرومی
احساس english meaning
feelingperceptionsensesensitiveness
شاعری
- کسی سے مل کے بچھڑنا تو کوئی بات نہ تھی
مگر شکست کا احساس جان لیوا تھا - پھولوں کی مہک کم نہیں کانٹوں کی چبھن سے
کس کس سے کوئی دامن احساس بچائے - تم کو خود حُسن کا احساس نہیں ہے ورنہ
آئینہ سامنے رکھ دوں تو پسینہ آجائے - جسے ہوتا نہیں احساس اوروں کی مصیبت کا
وہ اِک پتھر تو ہوسکتا ہے لیکن دل نہیں ہوتا - ساتھیو شرطِ سفر کب ہے کہ ہر کانٹے کو
آبلہ پائی کے احساس سے دیکھا جائے - صبا گزرتی ہے چُھو کر تو جاگ اٹھتا ہے
وہ لمَس جو مرے احساس میں نہاں ہے کہیں - موت سے زیست کا شعلہ کہاں بجھتا ہے عدم
صرف احساس کو اک نیند سی آجاتی ہے - موجود تو ہوں گے مگر احساس کی صورت!
خوشبو کی طرح رنگ کے میلے میں رہیں گے - تمنا نے ہمیں پایا، تغافل اُن کو راس آیا
کہ ہر احساس کو امجد کسی پیکر میں رہنا ہے - شعبدہ بازئ آئینۂ احساس نہ پُوچھ
حیرتِ چشم وہی شوخ قبا ہے کب سے