اذیت کے معنی

اذیت کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ اَذِی + یَت }

تفصیلات

iعربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مجرد کے باب سے مصدر اذیٰ ہے جو اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ فارسی قاعدے کے تحت |ی| بطور لاحقۂ کیفیت لگائی گئی۔ سب سے پہلے ١٦٩٣ء کو "وفات نامہ بی بی فاطمہ (ق)" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["نقصان یا ضرر پُہنچانا","اذیت دینا","تشویش میں ڈالنا","جسمانی تکلیف","خوف اضطراب بے چینی اعصابی خلل جس میں بار بار اور شدید خوف پیدا ہوتا ہے یا دیر تک طبیعت خوفزدہ رہتی ہے","ذہنی کوفت","رنج کا باعث","روحانی صدمہ","زیان (اٹھانا۔ اُٹھنا۔ بڑھنا۔ پانا۔ پُہنچانا۔ پُہنچنا۔ دینا۔ سہنا کے ساتھ)","غم و اندوہ"]

اذی اِیْذا اَذِیّت

اسم

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )

اقسام اسم

  • جمع : اَذِیَّتیں[اَذی + یَتیں (ی مجہول)]
  • جمع غیر ندائی : اَذِیَّتوں[اَذی + یَتوں (و مجہول)]

اذیت کے معنی

١ - جسمانی تکلیف، دکھ۔

"میدان جنگ میں شمار سے خارج آدمی ہر ہر طرح کچل کر اور اذیت جھیل کر مرے۔" (١٩٠٧ء، نپولین اعظم،۔ ٥:١)

٢ - ذہنی کوفت، روحانی صدمہ۔

"اس حادثے سے سرسید کو سخت اذیت اور رنج و ملال پہنچا۔" (١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ٢٨٣)

اذیت english meaning

a cookhousea kitchenanxietydistressExcruciationhurtOppressionsorrowtormentTorture

شاعری

  • نہ سویا کوئی شور شب سے مرے
    قیامت اذیت اُٹھاتے ہیں لوگ
  • چپکے کیا انواع اذیت عشق میں کھینچی جاتی ہے
    دل تو بھرا ہے اپنا تو بھی کچھ نہیں کہتے حیا سے ہم
  • دیکھنا دل کی اذیت طلبی
    پھر اُسی شہر کو جانا چاہے
  • مرے مزاج کی یہ مادرانہہ فطرت ہے
    سویرے ساری اذیت میں بھول جاؤں گا
  • خوف رقیب حسرت عجز عجز و نیاز ومنت
    جیوڑے پہ یہ اذیت آفت اٹھیں کیا کیا
  • پائے اذیت کیوں کر جاوے
    چیں نہ آوے موت نہ آوے
  • اذیت ایک دم اور تا قیامت خواب شیریں ہے
    ہمارا سر تری ہی طرح کاش اے کوہکن پھٹتا
  • ہمیشہ بیٹھے اٹھتے ہمیں اذیت دی
    ہمیں خدا نے محبت تجھے عداوت دی
  • اذیت دوست ہے پر چند لیکن دل بہلتا ہے
    سبب کیا ہے ابھی تک ناصح مشفق نہیں آیا
  • اذیت مصیبت ملامت بلائیں
    ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا

Related Words of "اذیت":