امتیاز
{ اِم + تِیاز }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٧٢ء کو "کلیات عادل شاہ ثانی" میں مستعمل ملتا ہے۔
["میز "," اِمْتِیاز"]
اسم
اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع : اِمْتِیازات[اِم + تِیا + زات]
- جمع غیر ندائی : اِمْتِیازوں[اِم + تِیا + زوں (و مجہول)]
امتیاز کے معنی
"عوام اس باریک امتیاز کو سمجھ نہ سکے اور نتیجہ یہ ہوا کہ اس پر بڑی لے دے ہوئی۔" (١٩١٩ء، مکاتیب اقبال، ٥٢:١)
یکساں ہو تم بھی غیر بھی کیا قدر ہو میری اس کو نگاہ نہ تمہیں امتیاز ہے (١٩٠٦ء، تیرو نشتر، ٨٤)
اٹھ کے حرم سے اس لیے جاتے ہیں میکدے رواں ایک کو ایک پر یہاں فوق ہے امتیاز ہے (١٩٢٦ء، روح رواں، ٨٩)
اک امتیاز سے پڑتی تھی یوں ہر اک ضربت غلط کتاب کی ہوتی ہے جس طرح صحت (١٩٤٢ء، خمسہ متخیرہ، آرزو، ١٤:٤)
پدر کی جاہیں بڑے بھائی اکبر خوش ذات رقم کرو انہیں آداب امتیاز کے سات (١٨٧٥ء، دبیر، دفتر ماتم، ٦٦:٣)
اس آگرہ میں اب تو عنایت سواے مہر سمجھے تمہارے شعر کسے امتیاز ہے (١٨٨٩ء، دیوان عنایت و سفلی، ٨١)
"پروفیسروں کو یقین تھا کہ اسے امتیاز ملے گا۔" (١٩٣٢ء، میدان عمل، ١٢٤)
مترادف
عقل, فوقیت, فرق