باد آور کے معنی

باد آور کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ باد + آ + وَر }

تفصیلات

iفارسی زبان میں اسم |باد| کے ساتھ مصدر آوردن سے مشتق صیغۂ امر |آور| بطور لاحقۂ فاعلی لگنے سے |باآور| مرکب بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٥٧ء میں |سحر (امان علی)"" میں مستعمل ملتا ہے۔

[""]

اسم

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )

باد آور کے معنی

١ - غیبی دولت جو بلا توقع ہاتھ لگ جائے، خسرو پرویز کے ایک خزانے کا نام (عموماً گنج کے ساتھ مستعمل)۔

 باغباں تجھ کو بھی ہے پرویز کی دولت نصیب موسم گل میں زرگل گنج باد آورد ہے (١٨٧٠ء، دیوان اسیر، ٤٥١:٣)

٢ - ایک گچھے دار کانٹوں کا پودا جو پہاڑوں اور ریگستانوں میں اگتا ہے، جواسا (عموماً دوا میں مستعمل)۔

|باد آور کو زیادہ تر پرانے بخاروں میں - جوش دے کر پلاتے ہیں۔" (١٩٢٩ء، کتاب الادویہ، ٥٥:٢)

٣ - [ موسیقی ] ایک سر کا نام۔ (جامع اللغات، 374:1)

٤ - پنکھا۔ (جامع اللغات، 374:1)

Related Words of "باد آور":