بسیرا کے معنی
بسیرا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ بَسے + را }
تفصیلات
iسنسکرت میں اصل لفظ |واس| کے ساتھ لاحقہ |کار| لگنے سے |واسکار| بنا اور اس سے ماخوذ اردو زبان میں |بسیرا| مستعمل ہے۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨١٠ء میں "اخوان الصفا" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["اقامت گاہ","بسرام کی جگہ","پرندوں کا رات کو گھونسلوں میں یا درختوں پر آرام کرنا","جائے شب گزاری","رات کو آرام کرنے کا ٹھکانہ","رات کے آرام کرنے کی جگہ","شام سے پیشتر کا وقت جب پرندے اپنی جگہوں پر بیٹھ جاتے ہیں","شب باشی","شب نشینی","قیام گاہ"]
واس بَسیرا
اسم
اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- واحد غیر ندائی : بَسیرے[بَسے + رے]
- جمع : بَسیرا[بَسے + رے]
- جمع غیر ندائی : بَسیروں[بَسے + روں (واؤ مجہول)]
بسیرا کے معنی
لو چلو باغ سے اے زمزمہ سنجان بہار کٹ گیا نخل وہی جس پہ بسیرا ہوتا (١٩٢٧ء، شاد، میخانۂ الہام، ٩٧)
تھے نرم چہچہے چڑیوں کے وہ بسیرے کے سلا رہی تھیں وہ دنیا کو لوریاں دے کے (١٩٣٦ء، جگ بیتی، ٣)
گھر یہ تیرا سدا نہ میرا ہے رات دو رات کا بسیرا ہے (١٩٣٨ء، سریلی بانسری، ٢١٩)
شہروں کے ہر فتنہ و شر سے میرا بسیرا اونچا ہے چھینٹوں سے اس پاپ نگر کے دامن اپنا بچاتا ہوں (١٩٣٨ء، نغمۂ فردوس، ١٩٣:٢)
بسیرا english meaning
night|s lodging; roosting in its nest (a bird) a roost; roosting time; place of staying or haltinga night|s lodgingabodeOut of tuneperchroostroosting
شاعری
- نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تُو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں - شہروں کے ہر فتنہ و شر سے میرا بسیرا اونچا ہے
چھینٹوں سے اس پاپ نگر کے دامن اپنا بچاتا ہوں - لو چلو باغ سے اے زمزمہ سنجان بہار
کٹ گیا نخل وہی جس پہ بسیرا ہوتا - بسیرا آج یہیں کیجیے ہوئی ہے شام
مثال جفت ہما کانے میں بسر کیجیے - مرغ جوں شام کو جاتے ہیں بسیرا لیتے
یوں یہ دل طرھ جاناں کی طرف جاتا ہے - زلف کو کھول کے کوٹھے پہ نہ چڑھ شام کو تو
جانور لیں ہیں بسیرا نہ بچھا دام کو تو - قفس ہر دوش صیاد جفا طینت کا پھیرا ہے
مقام گلشن ایجاد دم بھر کا بسیرا ہے - اس جگہ شاید کبھی اس کا بسیرا ہو سلیم
ایک چڑیا دیر تک بیٹھی رہی دیوار پر
محاورات
- بسیرا اختیار کرنا
- بسیرا بھول جانا
- بسیرا کرنا
- بسیرا کرنا یا لینا