بندوق کے معنی
بندوق کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ بَن + دُوق }
تفصیلات
iفارسی زبان میں بطور اسم جامد مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے داخل ہوا۔ عربی میں بھی مستعمل ہے۔ رباعی مجرد کے باب سے مشتق ہے اصلی حروف (ب ن د ق) ہیں۔ ١٦٩٧ء کو "دیوان ہاشمی" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["ایک اسلحہ جو یورپ کی ایجاد ہے یہ ایک لوہے کی نال ہوتی ہے جس کے ایک طرف لکڑی کا کندہ ہوتا ہے جسے مونڈھے سے لگا کر بندوق کو چلاتے ہیں بعض میں دو نالیاں ہوتی ہیں اس کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ بھرنے کے لحاظ سے ٹوپی دار اور کارتوس والی۔ اوال الذکر کو منہ کی طرف سے بھرتے ہیں۔ دوسری میں لکڑی اور نالی کے جوڑ میں سے کارتوس ڈالتے ہیں جس میں گولی چلتی ہے وہ عموماً ایک نالی ہوتی ہے۔ اسے رائفل کہتے ہیں","بندق سے جو ف فندق کا معرب ہے جس کے معنی گولی ہیں"]
اسم
اسم آلہ ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : بَنْدُوقیں[بَن + دُو (و مجہول) + قیں (ی مجہول)]
- جمع غیر ندائی : بَنْدُوقوں[بَن + دُو (و مجہول) + قوں (و مجہول)]
بندوق کے معنی
کہتا ہے یہ دل کہ خودکشی کی ٹھہرے خیر اس کو بھی مان لیں تو بندوق کہاں (کلیات، اکبر، ٤١٣:١)
بندوق english meaning
musketfirelockgunfowling piece(old use)(old use) musketa firelocka guna musketrifle
شاعری
- مری تقریر کا اس مِس پہ کچھ قابو نہیں چلتا
جہاں بندوق چلتی ہے وہاں جادو نہیں چلتا - بسکہ جلتے ہیں حسد سے دیکھ کر میرا فروغ
روز اڑایا کرتے ہیں بندوق سے دشمن چراغ - زیست چاہے تو نہ جا روبرو اس نو خط کے
طوطی خط نہیں بندوق کا وہ توتا ہے - بندوق کا نہیں ہے جو لینس غم نہیں
میں نے تو اس خیال ہی کو گولی مار دی - ہر منزل میں اب ساتھ ترے یہ جتنا ڈیر اڈانڈا ہے
زر دام درم کا بھانڈا ہے بندوق سپر اور کھانڈا ہے - مری تقدیر کا اس مس پہ کچھ قابو نہیں چلتا
جہاں بندوق چلتی ہے وہاں جادو نہیں چلتا
محاورات
- کانا بندوقچی کھمبا تیر انداز
- کاندھے پر رکھ کر بندوق چلانا
- کوت میں بندوق نہ دفتر میں نام