بندھا کے معنی
بندھا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ بَن + دَھا }
تفصیلات
iہندی سے ماخوذ مصدر |باندھنا| کا صیغہ ماضی مطلق ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٩٥٩ء کو "گناہ کا خوف" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(ماضی) بندھنا کی","جکڑا ہوا","رُکا ہوا","کسا ہوا"]
اسم
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- واحد غیر ندائی : بَنْدھے[بَن + دھے]
- جمع : بَنْدھے[بَن + دھے]
- جمع غیر ندائی : بَنْدھوں[بَن + دھوں (واؤ مجہول)]
بندھا کے معنی
١ - جکڑا ہوا، کسا ہوا، گرفتار، جو آزاد نہ ہو۔ (پلیٹس)
"اتنی اوقات نہیں کہ امیروں کی طرح روپے بندھوں کی الااچیاں خریدوں۔" (١٩٥٩ء، محمد علی ردولوی، گناہ کا خوف، ٩٨)
٢ - بڑا سکہ جو اپنی صورت میں ہو یعنی ریز گاری کی شکل میں نہ ہو، سالم پورا (روپیہ، نوٹ وغیرہ) جیسے: بندھا نوٹ، بندھا روپیہ۔
بندھا کے مترادف
بستہ, مقررہ
اچھور, بستہ, جکڑا, قیدی, معمولی, مقررہ, مقید
بندھا english meaning
fastenedtiedboundfixedhostileinimicalmaliciousto graffiti one|s resentment
شاعری
- جس ہاتھ میں رہا کی اُس کی کمر ہمیشہ
اُس ہاتھ مارنے کا سر پر بندھا ہے کرسا - جنون کہیں اور جا بندھا ہے
کس کام کی اب تری وفائیں - کیسے خوشبو کو بکھرجانے سے روکے کوئی!
رزقِ غنچہ اسی گٹھڑی میں بندھا رکھا ہے - کوئی پھول دھوپ کی پتیوں میں ہرے رنب سے بندھا ہوا
وہ غزل کا لہجہ نیا نیا نہ کہا ہوا نہ سنا ہوا - پانی کی سدھارے تھے مجھے آس بندھا کے
رخ بھی نہ کیا خیمے کا پھر خیمے سے جاکے - اب تصور ترا آنکھوں کے حضورآن بندھا
سچ ہے جاتا نہیں انسان کو جو دھیان بندھا - زائر شاہ نے سرکر سرمدفن رکھا
پھر تصور جو بندھا آنکھوں پہ دامن رکھا - جب تصور رخ گلگوں کا بندھا آنکھوں میں
خار ہر گل ہوا اے باد صبا آنکھوں میں - تار باتوں کا بندھا جب خوش گلو کی بزم میں
نامہ بر بھی مست ہوکر رقص فرمانے لگا - مضموں نہ بندھا موے کمر کا تو وہ بولے
ٹیڑھا نہ ہوا شاعروں سے بال ہمارا
محاورات
- امید / امید / امید / امید / امید بندھانا
- بندھا خوب مار کھاتا ہے
- بہتا پانی نرملا اور بندھا گندھلا ہوئے۔سادھو جاں رمتا بھلا۔ واگ نہ لاگے کوئے
- قسائی کے کھونٹے سے بندھا
- ڈھارس بندھانا (یا دینا)
- ہمت بندھانا