بٹھانا کے معنی
بٹھانا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ بِٹھا + نا }
تفصیلات
iہندی زبان میں بطور مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں ہندی سے ماخوذ ہے اور اصلی معنی میں ہی اردو رسم الخط میں مستعمل ہے۔ ١٥٠٣ء میں |نوسرہار| میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(امر) بیٹھنا کا","بدحواس کردینا","بسنے دینا","پیوست کرنا","درست کرنا","رہنے دینا","قائم رکھنا","ٹھیرنے دینا","ٹھیک جگہ پر لگانا","ٹھیک جمع کرنا"]
اسم
فعل متعدی
بٹھانا کے معنی
"اس مریض کو دوزانو بٹھال دینا چاہیے۔" (١٩٤٧ء، جراحیات زہراوی، ١١)
"اس رنج نے جو اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا سید صاحب کو بٹھا دیا۔" (١٩٣٥ء، چند ہمعصر، ٣٥١)
"ایسوسی ایشن نے - ہی اپنی ایک کمیٹی بٹھا دی تھی۔" (١٩٤٣ء، تعلیمی خطبات، ١٨٣)
"عربی فارسی کے لفظ نکال کر ان کی جگہ سنسکرت کے لفظ بٹھا دیے تھے۔" (١٩٣٩ء، خطبات عبدالحق، ١٦٧)
چلے میں کھینچ کھینچ قد کو کیا جوں کماں تیر مراد پر نہ بٹھایا نشانے میں (١٧٨٠ء، سودا، کلیات، ١٢١:١)
"لفظ سماج انھوں نے اپنی تحریروں میں اتنے پہلوؤں سے بٹھایا کہ رفتہ رفتہ کان اس لفظ سے مانوس ہو گئے۔" (١٩٤٧ء، فرحت اللہ بیگ، مضامین، ٤٢:٤)
"کون باغبان ایسا ہے کہ زمین وہ تیار کرے درخت وہ بٹھائے - اور جب پودے لہلہانے لگیں تو باغ سے نکالا جانا ہنسی خوشی گوارا کرلے۔" (١٩٣٠ء، انشائے ماجد، ١٨٠:٢)
"بچے ہیں مگر ابھی سے رمضان کا احترام ان کے دلوں میں بٹھا دیا گیا ہے۔" (١٩٢٧ء، گلدستۂ عید، ٤١)
جی کا اپنے بھید نہ جانو یہ چھالا ہے پتھر کا جو نہ بٹھائے بیٹھا اب تک اور نہ پھوڑے پھاٹا ہے (١٩٣٨ء، سریلی بانسری، ١٢٨)
"وہ بالوں پر ہیئر ٹانک لگانا، محنت سے ان کو بٹھانا۔" (١٩٦٦ء، لاجونتی، ٢١)
"اس روز شہزادے کو تخت پر بٹھالا۔" (١٨٠٢ء، خرد افروز، ٣١٧)
"یہ (ہڈی) کو بٹھانے کا طریقہ چاروں قسموں میں مشترک ہے۔" (١٩٤٧ء، جراحیات زہراوی، ٢٢٨)
مل کے بیٹھے تھے دونوں ہم وہ جہاں روتے روتے بٹھا دیا وہ مکاں (١٨٥١ء، مومن، کلیات، ٢٤٥)
رنج و قلق کے صدمہ و ایذا اٹھائیے دل کو بٹھا کے سینے میں کیا کیا اٹھائیے (١٩٠٥ء، داغ (نوراللغات، ٥٦٨:١))
"من سکھی پانچ برس کی تو ہو گئی، کیا پندرہ برس تک اس کو بٹھاؤں گی۔" (١٩٢١ء، اولاد کی شادی، ٢)
"کسی نے بھی بیٹی کو بٹھایا ہے جب بیٹی کو بیاہ دیا پھر اس کا شوہر مختار ہے۔" (١٨٦٦ء، جادۂ تسخیر، ٣٠٨)
"شرارتوں سے عاجز آکر ماں نے لڑکے کو مسجد میں ایک مولوی صاحب کے پاس بٹھا دیا۔" (١٩٢٤ء، نوراللغات، ٥٦٠:١)
"وہ تو نہیں نہیں کرتے رہے مگر راجہ صاحب ایک نہیں مانے اور موٹر میں بٹھال لیے چلے گئے۔" (١٩٦٩ء، افسانہ کر دیا، ١٦)
"للو حلوائی سیر بھر آٹے میں سیر بھر گھی بٹھا دیتا ہے۔" (١٩٢٤ء، نوراللغات، ٥٦٨:١)
"داؤ آ جائے تو میں گھر تک بٹھا دوں۔" (١٨٩٨ء، مخزن المحاورات، ١٤٣)
"کلہاڑی کے دستے کے سوراخ میں بٹھا کر اس میں ایک کیل بٹھائی جاتی ہے۔" (١٩٠٧ء، مصرف جنگلات، ١٨٥)
"سو روپے دے میں نے اپنے بھائی کو دوکان پر بٹھایا ہے۔" (١٩٢٤ء، نوراللغات، ٥٦٨:١)
"ایسوسی ایشن نے ١٩٤ء - سے پہلے ہی اپنی ایک کمیٹی بٹھا دی تھی۔" (١٩٤٣ء، تعلیمی خطبات، ذاکر حسین، ١٨٤)
"پرزے تو میں نے بھی نکالے مگر ان کو بٹھا نہیں سکا۔" (١٩٢٨ء، مضامین فرحت، ١٠٥:١)
"تھانے وغیرہ بٹھانے اور امن قائم رکھنے کے ذمہ دار بھی یہی تھے۔" (١٩٤٥ء، سفرنامۂ مخلص، دیباچہ، ٩١)
بٹھانا english meaning
to cause to enter; to enterplace; to piercethrust indrive homepress downram downpack closelystufffix firmly; to cause to be seatedcause to sitto seat; to settle; to set (as a stone in a ring); to plantsow; to cause to congealsolidify; to cause to cake; to install; to establishfixset up; to implant (in the mind)cause (child) to passtools send (child to school) for first time not to send( married girl) to in-lawscause to sit downimpressInstall (on throne)persuade (election candidate) to withdrawplantseatto cause to congealto cause to enter ( a boy in school)to cause to enter (a boy in school)to cause to sit downto fix firmlyto locateto plantto thrust in
شاعری
- آنکھ پر اس کو بٹھانا دل میں دینا اس کو جاے
واجب و لازم ہے یوں اس پرہیز کو دیکھنا
محاورات
- آغوش میں بٹھانا
- آنکھوں پر بٹھانا
- پردے بٹھانا
- پردے میں بٹھانا
- پلنگ پر بٹھانا
- پہرا بٹھانا
- پہرے میں بٹھانا یا دینا یا ڈالنا
- پہلو میں بٹھانا
- تخت پر بٹھانا
- جوڑ بٹھانا