بچاو
{ بچا + او }
تفصیلات
iاصلاً سنسکرت زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں سنسکرت سے ماخوذ ہے عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٥٠ء کو "نکات الشعرا" میں مستعمل ملتا ہے۔
[""]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
بچاو کے معنی
"اب اور اصلوں کو سنو اور ذرا ہوش کرو اور بچاو اختیار کرو۔" (١٨٥٢ء، تقویٰ، ٥)
"گردن اور کندھوں کی طرف سے اس قدر نیچا ہے کہ گردن اور کندھوں کا بچاو ہو سکے۔" (١٩٤٦ء، شیرانی، مقالات، ١٩)
"پی اے ایف کے اسکوئیڈرن لیڈر . نے اس بچاؤ مہم میں کام کیا۔" (١٩٦٧ء، روزنامہ جنگ، ٢٦ جولائی، ٨)
"اجازت صرف ان کی نسبت ملے گی جو عدالت کے نزدیک واسطے انصاف یا بچاؤ خرچ کے ضروری ہوں۔" (١٩٠٨ء، مجموعۂ ضابطۂ دیوانی، ٧٤)
"ایسے نازک وقت میں ذرا بھی غفلت ہوئی تو بچاو کی کوئی صورت باقی نہ رہے گی۔" (١٩٠٦ء،مقالات حالی، ١:١٦٦)
"جب سردیاں جاتی ہیں اور گرمیاں آتی ہیں تو خدا کی ہر مخلوق سورج سے بچاو ڈھونڈتی ہے۔" (١٩٢٦ء، کل کائنات بیتی، ٣)
"ایک شب اعظم علی خان معتمد الدولہ سے چھپ کر اپنے بچاو کے واسطے . حاضر ہوئے۔" (١٨٩٦ء، سوانحات سلاطین اودھ، ٣٠٤:١)