بھانت کے معنی
بھانت کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ بھانْت (ن مغنونہ) }
تفصیلات
iسنسکرت میں اصل لفظ | بھنت| ہے اور بطور اسم مستعمل ہے اردو میں اس سے ماخوذ |بھانت| مستعمل ہے ١٦٥٧ء میں "گلشن عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["رنگ نوع"]
بِھنّت بھانْت
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
بھانت کے معنی
"راجا نے من میں یہی ٹھانا ہے کہ ہم سب کو اسی بھانت ان بنا ترسا کر مارے۔" (١٨٢٥ء، سیر عشرت، ٧٢)
"روٹی یہاں کئی بھانت کی ہوتی ہے۔" (١٩٧٢ء، دنیا گول ہے، ٢٠٠)
یہ باو کیا پھری کہ تری لٹ پلٹ گئی ناگن کی بھانت ڈس کے مرا دل الٹ گئی (١٧١٨ء، دیوان آبرو (ق)، ٦٦)
"اس نمو کا اور شہزادے کا کوئی مقابلہ ہے، صورت میں، شکل میں، ذات میں، بھانت میں، عزت میں . یہ کس چیز میں ان کا مقابلہ کر سکتا ہے۔" (١٩٥٦ء، ہمارا گاؤں، ٢٥٢)
بھانت english meaning
cap-a-piein courtkindmannermethodmodeordersortto from head to toevarietyway
شاعری
- موافق عمل کے ملے گا لباس
نہیں ذات اور بھانت کر لو قیاس - چڑیوں کی ہے بھانت بھانت آواز
پھولوں کا ہے جدا جدا انداز - پکائی بھانت بھانتو کی سو کھانی
پلا واں سب جنس پکوا کے آنی - کہ جے لوڑ جی خوب اسکوں سوار
سو اس بھانت ہونا تریا کوں بھتار - خوش نظریات کے باتاں رنگا کر رنگ میں سکل
شب کشا پھول تے چونری دسے کئی بھانت کا رنگ - بسن ہار ہر جنس کے جانور
ہریک بھانت کر نقل شیریں ثمر - دہنی نینجو واں ڈر بہوت بھانت ہے
دندیا کوں مرے ملک بر دانت ہے - مذکور کروں جس کر پا کا وہ میں نے ہے اس بھانت سنی
جو اک بستی ہے جوناگڑھ واں رہتے تھے مہتا نرسی - حلق کے اندر مارا تیر
اب کس بھانت دھروں میں دھیر - ذات بھانت پوچھے نہیں کوئے
ہر کو بھجے سو ہر کا ہوئے
محاورات
- چڑی مار ٹولہ‘ بھانت بھانت کا پنچھی بولا
- چڑیمار ٹولہ بھانت بھانت کا پنچھی بولا
- ذات پات (بھانت ذمات) نہ پوچھے کوئے ہر کو بھجے سوہر کا ہوئے
- ذات پات (بھانت یا ذمات) نہ پوچھے کوے جینو پہن کے باہمن ہوئے
- ذات پات (بھانت) نہ پوچھے کوئی کرتی پہنی تلنگیا ہوئے
- سائیں اس سنسار میں بھانت بھانت کے لوگ۔ سب سے مل کر بیٹھئے ندی ناؤ سنجوگ
- سرمہ سب لگاتے ہیں پر چتون بھانت بھانت
- کاجل (تو سب لگاتے ہیں) سب کو دینا آتا ہے پر چتون بھانت بھانت