بہانہ کے معنی
بہانہ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ بَہا + نَہ }
تفصیلات
iفارسی زبان سے اردو میں داخل ہوا، اسم جامد ہے۔ ١٦٣٨ء کو "چندر بدن و مہیار" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["ظاہر داری","عذر بیجا","عذرِ بے جا","لار الیری","لیت ولعل","مکر جھانسا"]
اسم
اسم مجرد
بہانہ کے معنی
ہم کو مرنا بھی میسر نہیں جینے کے بغیر موت نے عمر دو روزہ کا بہانا چاہا (١٩٤١ء، کلیات، فانی، ٦١)
چشم سیہ میں سرمہ دے، زلف رسا میں شانہ کر قتل جہاں کے واسطے تازہ پھر اک بہانہ کر (١٩٢٧ء، میخانہ الہام، شاد، ١٦٠)
"اس بہانے سے اکثر، ناجائز تخیلات کو عمدہ الفاظ کے پیرایے میں ادا کرنے کا اچھا موقع مل جاتا ہے"۔ (١٩٠٠ء، شریف زادہ، ٢٥)
بہانہ english meaning
excusepretextpleapretence; shiftevasionsubterfugecontrivancefeintblind; affectationa commandera ring leadercausefeignmeanspretence
شاعری
- مجھ سے کہتا ہے کہ سائے کی طرح ساتھ ہوں میں
یُوں نہ ملنے کا نکالا ہے بہانہ کیسا - حنا کا اب نہ بہانہ تراش میں خوش ہوں
کہ دل کا آخری قطرہ بھی میرے کام آیا - لوگ دردِ ہستی کا زہر پی نہیں سکتے
آپ کی محبت تو صرف اک بہانہ ہے - وہی نہیں تو وَرق کس لیے سیاہ کریں
سخن تو عرضِ تمنا کا اِک بہانہ تھا - کہکشاں سے پرے، آسماں سے پرے، رہگزارِ زمان و مکاں سے پرے
مجھ کو ہرحال میں ڈھونڈنا تھا اُسے، یہ زمیں کا سفر تو بہانہ ہوا - تلاشِ منزلِ جاناں تو اک بہانہ تھا
تمام عمر میں اپنی طرف روانہ تھا - وہی نہیں تو ورق کس لیے سیاہ کریں
سخن تو عرضِ تمنا کا اک بہانہ تھا - ترکِ اُلفت کا بہانہ چاہے
وہ مُجھے چھوڑ کے جانا چاہے - کوئی آہٹ تھی نہ سایا تھا
دل تو رُکنے کا بہانہ چاہے - کیا بہانہ جو کافر نے بت پرستی کا
تو عین وصل میں پتھرائیں پتلیاں میری
محاورات
- اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ
- بہانہ ڈھونڈنا
- بہانہ کرنا
- حیلہ جورا بہانہ بسیار است
- حیلہ رزق بہانہ موت
- خوے بدرا بہانہ بسار
- رحمت حق بہانہ خواہد
- نصیحتے کنمت بشوذ بہانہ مگیر۔ ہر آنچہ ناصح مشفق بگویدت پذیر