بیگانہ کے معنی
بیگانہ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ بے + گا + نَہ }
تفصیلات
iاصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی مستعمل ہے۔ ١٥٠٠ء میں |معراج العاشقین" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["دوسرے کا","غیر مانوس","یگانہ کا نقیض"]
اسم
صفت ذاتی ( واحد )
اقسام اسم
- واحد غیر ندائی : بیگانے[بے + گا + نے]
- جمع : بیگانے[بے + گا + نے]
- جمع غیر ندائی : بیگانوں[بے + گا + نوں (واؤ مجہول)]
بیگانہ کے معنی
|باوجود زبردست عالم و فاصل ہونے کے مذہب سے بیگانہ تھے۔" (١٩٣٥ء، چند ہمعصر، ١٠٢)
مول لینگے دے کے کیا اہل خطا اہل ختن مشک تو بیگانہ کالائے گیسو ہو گیا (١٨٦٧ء، رشک، دیوان، ١٨)
بیگانہ کے مترادف
اجنبی, اجنب, سوتیلا
اجنبی, انجان, اکھڑ, پرایا, پردیسی, دوسرا, غیر, ناآشنا, ناواقف
بیگانہ english meaning
(one) outside a groupcallousforeignforeignernot relatedpovertyscarcitystrangestrange ; queerstrangerunfriendly
شاعری
- پائمالِ عہد جفا ناحق نہ ہو اے عندلیب
سبزۂ بیگانہ بھی تھا اس چمن کا آشنا - کیا کروں‘ کس سے کہوں‘ اتنا ہی بیگانہ ہے یار
سارے عالم میں نہیں پاتے کسی کا آشنا - یوں سنا جاہے کہ کرتا ہے سفر کا عزم جزم
ساتھ اب بیگانہ وصفوں کے ہمارا آشنا - بیگانہ سا لگے ہے چمن اب خزاں میں ہائے
ایسی گئی بہار مگر آشنا نہ تھی - دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کردیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے - وہ نظر آج بھی کم معنی و بیگانہ نہیں
اس کو سمجھا بھی کرو‘ اس پہ بھروسہ بھی کرو - حیف کہتے ہیں ہوا گلزار‘ تاراجِ خزاں
آشنا اپنا بھی واں اک سبزۂِ بیگانہ تھا - یہاں سے کیوں کوئی بیگانہ گزرے
یہ میرے خواب ہیں، رستہ نہیں ہے - دوستی کا غیر کی کیا ذکر اس دل میں کہ دوست
آشنائی میں تری ہیں اپ سے بیگانہ ہم - میں ہوں وہ کشتہ کہ بیگانہ ہے سبزہ جس سے
اور اگر ہے تو ہے آغشتہ زہر اب سناں
محاورات
- بیگانہ سر پنسیری برابر (کی جگہ) بیگانہ سرکدو برابر
- چٹھی نہ پروانہ مار کھائیں ملک بیگانہ
- لطف کن لطف کہ بیگانہ شود حلقہ بگوش