تقسیم کے معنی
تقسیم کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ تَق + سِیم }
تفصیلات
iعربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب تفعیل سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٤٢١ء کو بندہ نواز کی "شکارنامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["کسی چیز کو کئی آدمیوں میں تقسیم کرنا","جِس میں ایک عدد کو دوسرے عدد پر بانٹتے ہیں (کرنا۔ ہونا کے ساتھ)","حساب کا قاعدہ","حساب کا وہ قاعدہ جس میں ایک عدد کو دوسرے پر بانٹتے ہیں۔ اصل میں تفریق متواتر کا اختصار ہے","حِصّہ کرنا"]
قسم تَقْسِیم
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : تَقْسِیمیں[تَق + سی + میں (ی مجہول)]
- جمع استثنائی : تَقْسِیمات[تَق + سی + مات]
تقسیم کے معنی
"خاندانی جائیدادیں بیع اور تقسیم سے محفوظ رہیں۔" (١٩٣٨ء، حالاتِ سرسید، ٥٧)
"وہاں ایک جنا ملیا ہور بولیا تقسیم مرا دیو۔" (١٤٢١ء، بندہ نواز، شکارنامہ (|شہباز| سکھر، فروری، ٦٢ء))
"شہنشاہی فوج کی وہ تقسیم جو طرف شمال حفاظت سلطنت کے واسطے مقرر ہے اوس شہر میں متعین رہتی ہے۔" (١٨٤٨ء، تاریخ ممالک چین، ٥٨)
"ہند میں کوئلے کی کانیں بہت کثرت سے ہیں - اور ان کی چار تقسیمیں ہیں۔" (١٩١٣ء، تمدن ہند، ٥٥)
"ایک ہی یونی ورسٹی میں ایک سے زیادہ تقسیموں کی خاصیتیں پائی جاتی ہیں۔" (١٩١٢ء، افتتاحی ایڈریس، سید حسن بلگرامی، ٩٠)
"ایک سو چالیس سیر کے ساڑھے تین من ہوئے، انھیں چالیس پر تقسیم کر لو۔" (١٩٠٨ء، صبح زندگی، ١٨٧)
"عنصری نے اکثر صنعتیں مثلاً لف و نشر، ترصیع، تقسیم، سوال و جواب کثرت سے برتیں۔" (١٩٠٧ء، شعرالعجم، ٦٩:١)
کبھی منصب کبھی تقسیم میں دیں جاگیریں شقے لکھے گئے ہونے لگے فرمان رقم (١٨٧٢ء، مراۃ الغیب، ١)
"حقوق تقسیم برائے سندھ کراچی و بلوچستان جوکہ ہمارے پاس تھے ہم اس سے دستبردار ہو چکے ہیں۔" (١٩٦٦ء، روزنامہ |جنگ| کراچی، ١٧ ستمبر، ٩)
تقسیم کے مترادف
قسمت, ڈویژن, انقسام
انقسام, بانٹ, بانٹنا, بٹوارہ, قسمت, قَسَمَّ, کھند, کھنڈ
تقسیم کے جملے اور مرکبات
تقسیم اراضی, تقسیم دار, تقسیم شخصیت, تقسیم کار, تقسیم ثالثی, تقسیم مرکب, تقسیم مکمل, تقسیم نامہ, تقسیم فرضی, تقسیم فریبی, تقسیم محال, تقسیم محنت, تقسیم مختصر, تقسیم مدارج, تقسیم جائز, تقسیم خانگی, تقسیم سرکاری, تقسیم سرمایہ, تقسیم عمل
تقسیم english meaning
a voluntary act of religionapportionmentcirculationdistributionDivisionpartitionsupererogatory prayers
شاعری
- دل کی حالت سے کیا کرتے ہیں ہم تقسیم وقت
بُجھ گیا تو صبح ہے اور جل گیا تو شام ہے - … کئی سال ہوگئے
خوابوں کی دیکھ بھال میں آنکھیں اُجڑ گئیں
تنہائیوں کی دُھوپ نے چہرے جلادیئے
لفظوں کے جوڑنے میں عبارت بکھر چلی
آئینے ڈھونڈنے میں کئی عکس کھوگئے
آئے نہ پھر وہ لوٹ کے‘ اِک بار جو گئے
ہر رہگزر میں بِھیڑ تھی لوگوں کی اِس قدر
اِک اجنبی سے شخص کے مانوس خدّوخال
ہاتھوں سے گر کے ٹوٹے ہُوئے آئنہ مثال
جیسے تمام چہروں میں تقسیم ہوگئے
اِک کہکشاں میں لاکھ ستارے سمو گئے
وہ دن‘ وہ رُت ‘ وہ وقت ‘ وہ موسم‘ وہ سرخُوشی
اے گردشِ حیات‘ اے رفتارِ ماہ و سال!
کیا جمع اس زمیں پہ نہیں ہوں گے پھر کبھی؟
جو ہم سَفر فراق کی دلدل میں کھوگئے
پتّے ج گر کے پیڑ سے‘ رستوں کے ہوگئے
کیا پھر کبھی نہ لوٹ کے آئے گی وہ بہار!
کیا پھر کبھی نہ آنکھ میں اُترے گی وہ دھنک!
جس کے وَفُورِ رنگ سے چَھلکی ہُوئی ہَوا
کرتی ہے آج تک
اِک زُلف میں سَجے ہُوئے پُھولوں کا انتظار!
لمحے‘ زمانِ ہجر کے ‘ پھیلے کچھ اِس طرح
ریگِ روانِ دشت کی تمثال ہوگئے
اس دشتِ پُرسراب میں بھٹکے ہیں اس قدر
نقشِ قدم تھے جتنے بھی‘ پامال ہوگئے
اب تو کہیں پہ ختم ہو رستہ گُمان کا!
شیشے میں دل کے سارے یقیں‘ بال ہوگئے
جس واقعے نے آنکھ سے چھینی تھی میری نیند
اُس واقعے کو اب تو کئی سال ہوگئے!! - وقت کے اک کنکر نے جس کو عکسوں میں تقسیم کیا
آبِ رواں میں کیسے امجد اب وہ چہرا جوڑوں گا! - میں بھیگ بھیگ گیا آرزو کی بارش میں
وہ عکس عکس میں تقسیم چشمِ ترسے ہُوا - ملک تقسیم ہوئے، دل تو سلامت ہیں ابھی
کھڑکیاں ہم نے کھلی رکھی ہیں دیواروں میں - ایک دل اور فرد فرد حصہ موے مژہ
ہاں اب اے تیغ نگاہ دیکھیں تری تقسیم کو - قسمت کر نہارا اپیں جس دیس تھے قسمت کیا
اس دیس تھے اے قطب شہ تقسیم تج آیا انند - غیر کی قسمت سے ہوں میں کم نصیب
بانٹ کیسی تھی یہ تھی تقسیم کیا - گلوریاں نہیں تقسیم عام کی خاطر
یہی سمجھ کے ترا خاص دان بھاتا ہے - منزل تو خوش نصیبوں میں تقسیم ہو چکی
کچھ خوش خیال لوگ ابھی تک سفر میں ہیں
محاورات
- تقسیم کرنا