تلافی کے معنی
تلافی کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ تَلا + فی }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٨١٠ء کو "شاہ نامہ مُنشی" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["نقصان پہنچانا","پاداش مکافات","حق رسی","داد رسی","کسی نقصان کا عوض یا بدلہ جو اپنی مرضی سے دیا جائے"]
لفء تَلافی
اسم
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : تَلافِیاں[تَلا + فِیاں]
- جمع غیر ندائی : تَلافِیوں[تَلا + فِیوں (و مجہول)]
تلافی کے معنی
نگاہ مڑکے دمِ اختصار کرتا جا تلافی ستمِ روز گار کرتا جا (١٩٤٠ء، کلیاتِ بیخود، ٨)
ہو گئی میرے پھنسانے کی تلافی غیب سے پھنس گئے آخر نہ تم بھی اپنے گھر کے کار میں (١٨٨٤ء، صابر، ریاض صابر، ١٥٢)
تلافی کے مترادف
جزا
ازالہ, بدل, بدلہ, پاداش, تدارک, صلہ, عوض, لَفَوَ, مکافات
تلافی کے جملے اور مرکبات
تلافی کن تار
تلافی english meaning
a bad workman quarrel with his toolscompensationmaking a scapegoat of someonemaking amendsrecompensereparation
شاعری
- عذرِ گناہ خوباں بدتر گنہ سے ہوگا
کرتے ہوئے تلافی بے لطف تر کریں گے - تیری وفا سے کیا ہو تلافی کہ دہر میں
تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے - رات بھر بیتابیوں کی کچھ تلافی چاہیے
صبح نے بیمار غم کی آنکھ جھپکائی تو کیا - ہو گئی میرے پھنسانے کی تلافی غیب سے
پھنس گئے آخر نہ تم بھی اپنے گھر کے کار میں - دے داد اے فلک دل حسرت پرست کی
ہاں کچھ نہ کچھ تلافی مافات چاہیے - تسکین دو کچھ اپنے مریضوں کو نزع میں
اتنی ہی اب تلافی مافات رہ گئی - توبہ جناب شیخ نے کی ہے پس شباب
کب تک نہ ہو تلافی مافات کا لحاظ - یہ تلافی کس لیے کچھ یاد وہ باتیں کرو
مر گیا دشمن تو کیا میرا گلا جاتا رہا - تلافی ہوگئی حسرت کی عِشرت اے زہے قِسمت
مُبَدل ہو گئی آسانیوں سے میری دشواری - ہم سے اکھڑ کے آپ نے غیروں سے راہ کی
سچ ہے یہی جہاں میں تلافی ہے چاہ کی