تونگر

{ تَوَن(نون غنہ) + گر }

تفصیلات

iفارسی زبان سے ماخوذ اسم |توان| کی معرفہ شکل |تون| کے بعد فارسی لاحقہ صفت |گر| لانے سے تونگر بنا جو اردو میں اپنے اصل معنی کے ساتھ بطور صفت استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

[""]

اسم

صفت ذاتی

اقسام اسم

  • جمع غیر ندائی : تَوَنْگَروں[تَوَن (ن غنہ) + گَروں (و مجہول)]

تونگر کے معنی

١ - دولت مند، متمول، مالا مال۔

 سب کے لیے ہے یکساں قدرت کا فیض جاری مفلس ہو، تونگر راجہ ہو یا بھکاری (١٩٢٩ء، مطلع انوار، ١٤٢)

٢ - بے نیاز، مستغنی، بے پروا۔

 تونگر ہوا خلق اس کاج تے سوا لکھ برس راج کر آج تے (١٥٦٤ء، دیوانِ حسن شوقی، ١٢٦)